یٰقَوۡمِ لَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا ؕ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اے میری قوم! میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اس ذات پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟

51۔ یعنی جب میں ہر قسم کے مفاد سے بالاترہو کر اس دعوت کے سلسلے میں مشقتیں اٹھا رہا ہوں اور تمہارے دین کی مخالفت کر کے سب کو اپنا دشمن بنا چکا ہوں تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ اگر حق و حقیقت جیسی اطمینان بخش طاقت میری پشت پر نہ ہوتی تو ان سب مصائب و مشکلات سے بے پرواہ ہو کر اس گرداب میں کیوں کود پڑتا۔

وَ یٰقَوۡمِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا وَّ یَزِدۡکُمۡ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمۡ وَ لَا تَتَوَلَّوۡا مُجۡرِمِیۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ اور اے میری قوم! اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا اور مجرم بن کر منہ نہ پھیرو۔

52۔ اس مضمون کی ایک آیت رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف نازل ہوئی تھی جو سورہ کی ابتدا میں گزر گئی۔ اس کے علاوہ دیگر متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیوی زندگی کی سعادت و شقاوت میں دینی قدروں کو دخل حاصل ہے۔

قَالُوۡا یٰہُوۡدُ مَا جِئۡتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَّ مَا نَحۡنُ بِتَارِکِیۡۤ اٰلِہَتِنَا عَنۡ قَوۡلِکَ وَ مَا نَحۡنُ لَکَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ کہنے لگے: اے ہود! تم ہمارے سامنے کوئی شہادت نہیں لائے اور ہم تمہاری بات پر اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی ہم تجھ پر ایمان لا سکتے ہیں۔

53۔ قوم ہود علیہ السلام کا مؤقف یہ تھا کہ اگر آپ علیہ السلام اللہ کے نمائندہ ہیں تو اس پر کوئی دلیل پیش کریں اور جو دلیل وہ پیش کرتے اسے مسترد کرتے تھے۔ بالکل مشرکین مکہ کی طرح جو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزات مانگتے تھے اور جو معجزہ پیش کیا جاتا اسے مسترد کرتے تھے۔

اِنۡ نَّقُوۡلُ اِلَّا اعۡتَرٰىکَ بَعۡضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوۡٓءٍ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اُشۡہِدُ اللّٰہَ وَ اشۡہَدُوۡۤا اَنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۵۴﴾

۵۴۔ کیونکہ ہم تو یہ کہتے ہیں: تجھے ہمارے معبودوں میں سے کسی نے آسیب پہنچایا ہے، ہود نے کہا: میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ (اللہ کے سوا) جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔

مِنۡ دُوۡنِہٖ فَکِیۡدُوۡنِیۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ لَا تُنۡظِرُوۡنِ﴿۵۵﴾

۵۵۔اس اللہ کے سوا تم سب مل کر میرے خلاف سازش کرو پھر مجھے مہلت نہ دو۔

54۔ 55 حضرت ہود علیہ السلام نے کمال استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا : میں اللہ اور تم سب کو گواہ بنا کر تمہارے معبودوں سے اعلان بیزاری کرتا ہوں اور تم سب مل کر میرے خلاف جو کچھ کر سکتے ہو کرو۔ اگر تمہارے معبود مجھے آسیب پہنچا سکتے ہیں تو میرے خلاف تمہاری مدد بھی کر سکتے ہیں، ایک بار میرے خلاف ان معبودوں سے مدد لے کر دکھاؤ۔ حضرت ہود علیہ السلام اپنے اس چیلنج پر اس قدر اپنے رب پر اعتماد کا اظہار فرما رہے ہیں کہ کافروں سے فرماتے ہیں کہ جیسے اللہ تمہیں مہلت دیتا ہے، مجھے مہلت بھی نہ دو اور اپنی سازش پر فوری عمل کرو۔

اِنِّیۡ تَوَکَّلۡتُ عَلَی اللّٰہِ رَبِّیۡ وَ رَبِّکُمۡ ؕ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ اِلَّا ہُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۵۶﴾

۵۶۔ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے، کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی پیشانی اللہ کی گرفت میں نہ ہو، بیشک میرا رب سیدھے راستے پر ہے۔

56۔ حضرت ہود علیہ السلام نے دشمن کو اس کی ناتوانی کا احساس دلایا، اس کے بعد اپنی طاقت کا بھی احساس دلا رہے ہیں کہ میں نے اس رب پر بھروسہ کیا ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر جاندار کی جان ہے، وہی طاقت کا سرچشمہ ہے اور وہی عدل و انصاف کا مالک بھی ہے۔ وہ حق کا ساتھ دیتا ہے اور باطل کو نابود کرتا ہے۔

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ مَّاۤ اُرۡسِلۡتُ بِہٖۤ اِلَیۡکُمۡ ؕ وَ یَسۡتَخۡلِفُ رَبِّیۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ۚ وَ لَا تَضُرُّوۡنَہٗ شَیۡئًا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَفِیۡظٌ﴿۵۷﴾

۵۷۔ پھر اگر تم منہ پھیرتے ہو تو میں نے تو وہ پیغام تمہیں پہنچا دیا ہے جس کے ساتھ میں تمہاری طرف بھیجا گیا تھا اور میرا رب تمہاری جگہ اور لوگوں کو لائے گا اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، بیشک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔

57۔ حجت پوری ہونے کے بعد حق سے منہ پھیرنے کی صورت میں جو کچھ امتوں کے ساتھ ہوا ہے، اسی انجام کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تمہیں صفحۂ ہستی سے مٹا کر تمہاری جگہ دوسری قوموں کو آباد کرے گا۔

وَ لَمَّا جَآءَ اَمۡرُنَا نَجَّیۡنَا ہُوۡدًا وَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ بِرَحۡمَۃٍ مِّنَّا ۚ وَ نَجَّیۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِیۡظٍ﴿۵۸﴾

۵۸۔ پھر جب ہمارا فیصلہ آیا تو ہود اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے ہم نے اپنی رحمت سے انہیں بچا لیا اور ہم نے انہیں سنگین عذاب سے نجات دی۔

وَ تِلۡکَ عَادٌ ۟ۙ جَحَدُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ وَ عَصَوۡا رُسُلَہٗ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَمۡرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ﴿۵۹﴾

۵۹۔ یہ وہی عاد ہیں، جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش دشمن کے حکم کی پیروی کی۔

59۔ قوم عاد کی تین خصلتوں کا ذکر ہے: I۔ اللہ کی نشانیوں کا انکار کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد کو حضرت ہود علیہ السلام نے معجزات بھی دکھائے تھے۔II۔اس قوم نے رسولوں کی نافرمانی کی۔چونکہ تمام رسولوں کا پیغام اور رسالت ایک ہی ہوتی ہے لہذا ایک رسول کی نافرمانی دوسرے رسولوں کی بھی نافرمانی شمار ہوتی ہے۔ III۔ اس قوم نے اللہ کے نمائندوں کی نافرمانی کر کے سرکشوں کی پیروی کی اور اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں آ گئی۔ ان تین خصلتوں کی وجہ سے وہ دنیا و آخرت دونوں میں اللہ کی رحمت سے دور ہو گئی۔ کیونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، جب کھیتی ہی رحمت سے دور ہو اور اسے مناسب پانی اور روشنی نہ ملے تو جو کچھ کھیتی کی دنیا میں رونما ہو گا وہ اثر فصل پر پڑنا ایک طبعی امر اور واضح بات ہے۔ آیت بتاتی ہے کہ خدا کی طرف سے مقرر شدہ رہنمائی کی مخالفت اور ان کی نافرمانی کا لازمی نتیجہ طاغوت کی غلامی ہے اور طاغوت کی اطاعت دنیا و آخرت میں لعنت خداوندی کا باعث ہے۔

وَ اُتۡبِعُوۡا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا لَعۡنَۃً وَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ عَادًا کَفَرُوۡا رَبَّہُمۡ ؕ اَلَا بُعۡدًا لِّعَادٍ قَوۡمِ ہُوۡدٍ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ اور اس دنیا میں بھی لعنت نے ان کا تعاقب کیا اور قیامت کے روز بھی (ایسا ہو گا)، واضح رہے عاد نے اپنے رب سے کفر کیا، آگاہ رہو! ہود کی قوم (یعنی) عاد کے لیے (رحمت حق سے) دوری ہو۔