چیلنج


وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ نُوۡحٍ ۘ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکُمۡ مَّقَامِیۡ وَ تَذۡکِیۡرِیۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡتُ فَاَجۡمِعُوۡۤا اَمۡرَکُمۡ وَ شُرَکَآءَکُمۡ ثُمَّ لَا یَکُنۡ اَمۡرُکُمۡ عَلَیۡکُمۡ غُمَّۃً ثُمَّ اقۡضُوۡۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنۡظِرُوۡنِ﴿۷۱﴾

۷۱۔ انہیں نوح کا قصہ سنا دیجئے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا کر تمہیں نصیحت کرنا تمہیں ناگوار گزرتا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے پس تم اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر مضبوطی سے اپنا فیصلہ کر لو پھر اس فیصلے کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے ساتھ جو کچھ کرنا ہے کر گزرو اور مجھے مہلت بھی نہ دو۔

71۔ تاریخ انبیاء کا وہ حصہ بیان ہو رہا ہے جس میں انبیاء علیہم السلام اس قسم کے حالات سے دو چار رہ چکے ہیں، جن سے رسالتمآب ﷺ مکہ میں دو چار تھے۔ تکذیب کرنے والوں کی کثرت و قوت، ایمان لانے والوں کی قلت و کمزوری۔ منطق و استدلال کے مقابلے میں خرافات۔ ایسے نامساعد حالات میں حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو جس لہجے و انداز میں چیلنج اور جس استقامت و توکل کا اظہار کیا ہے، وہ اس قسم کے حالات سے دو چار ہونے والے حضرت رسول خدا ﷺ کے لیے باعث تسلی و اطمینان ہے۔

اِنۡ نَّقُوۡلُ اِلَّا اعۡتَرٰىکَ بَعۡضُ اٰلِہَتِنَا بِسُوۡٓءٍ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اُشۡہِدُ اللّٰہَ وَ اشۡہَدُوۡۤا اَنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۵۴﴾

۵۴۔ کیونکہ ہم تو یہ کہتے ہیں: تجھے ہمارے معبودوں میں سے کسی نے آسیب پہنچایا ہے، ہود نے کہا: میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ (اللہ کے سوا) جنہیں تم شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں۔

مِنۡ دُوۡنِہٖ فَکِیۡدُوۡنِیۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ لَا تُنۡظِرُوۡنِ﴿۵۵﴾

۵۵۔اس اللہ کے سوا تم سب مل کر میرے خلاف سازش کرو پھر مجھے مہلت نہ دو۔

54۔ 55 حضرت ہود علیہ السلام نے کمال استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا : میں اللہ اور تم سب کو گواہ بنا کر تمہارے معبودوں سے اعلان بیزاری کرتا ہوں اور تم سب مل کر میرے خلاف جو کچھ کر سکتے ہو کرو۔ اگر تمہارے معبود مجھے آسیب پہنچا سکتے ہیں تو میرے خلاف تمہاری مدد بھی کر سکتے ہیں، ایک بار میرے خلاف ان معبودوں سے مدد لے کر دکھاؤ۔ حضرت ہود علیہ السلام اپنے اس چیلنج پر اس قدر اپنے رب پر اعتماد کا اظہار فرما رہے ہیں کہ کافروں سے فرماتے ہیں کہ جیسے اللہ تمہیں مہلت دیتا ہے، مجھے مہلت بھی نہ دو اور اپنی سازش پر فوری عمل کرو۔