وَ قَالَ ارۡکَبُوۡا فِیۡہَا بِسۡمِ اللّٰہِ مَ‍‍جۡؔرٖىہَا وَ مُرۡسٰىہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۴۱﴾

۴۱۔ اور نوح نے کہا: کشتی میں سوار ہو جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، بتحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَ ہِیَ تَجۡرِیۡ بِہِمۡ فِیۡ مَوۡجٍ کَالۡجِبَالِ ۟ وَ نَادٰی نُوۡحُۨ ابۡنَہٗ وَ کَانَ فِیۡ مَعۡزِلٍ یّٰـبُنَیَّ ارۡکَبۡ مَّعَنَا وَ لَا تَکُنۡ مَّعَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی، اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو کچھ فاصلے پر تھا پکارا: اے بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو۔

قَالَ سَاٰوِیۡۤ اِلٰی جَبَلٍ یَّعۡصِمُنِیۡ مِنَ الۡمَآءِ ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الۡیَوۡمَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ ۚ وَ حَالَ بَیۡنَہُمَا الۡمَوۡجُ فَکَانَ مِنَ الۡمُغۡرَقِیۡنَ ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اس نے کہا: میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح نے کہا: آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے، پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا۔

41 تا 43 اللہ کے غضب اور عذاب سے نجات کے لیے نجات کی کشتی میں سوار ہونا ضروی ہے۔ اگر انسان کشتی نجات سے انحراف کرے تو کسی اولوالعزم نبی کے ساتھ رشتہ داری نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ اسی لیے حضرت نوح کا ایک بیٹا غرق ہوا کیونکہ وہ نجات کے حقیقی ذریعہ ایمان اور اطاعت رسول اور کشتی کی بجائے ایک موہوم ذریعہ یعنی پہاڑ کو نجات کا ذریعہ سمجھتا رہا۔ حضرت نوح کی بیوی بھی غرق ہو گئی کیونکہ وہ بھی کشتی نجات پر عقیدہ نہیں رکھتی تھی اور حضرت نوح کے ساتھ خیانت کرتی تھی۔ جیسا کہ سورﮤ تحریم میں ارشاد ربانی ہے: ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا اللہ کافروں کے لیے نوح اور لوط کی بیوی کی مثال بیان کرتا ہے۔ یہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے نکاح میں تھیں، لیکن ان دونوں کے ساتھ ان دونوں (عورتوں) نے خیانت کی۔ طوفان میں کشتی کی دو حالتیں ہوتی ہیں: ایک دوران طوفان اس کا چلنا۔ دوسری طوفان کے بعد اس کا تھمنا اور کسی ساحل پر آکر رکنا۔ پانی کی طوفانی موجیں ہوں یا خشکی یا خوف و ہراس کی حالتیں ہوں یا ساحل امن، ہر حالت میں انسان خدا کا نام اور اذن کی طرف محتاج رہتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے اس خطاب میں توحید کا عنصر سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ اگرچہ وسیلہ اور تدبیر سے غافل نہیں، کشتی بنائی جاتی ہے، سوار کرائے جاتے ہیں، لیکن مؤثر فی الوجود اور حقیقی نجات دہندہ تو اللہ ہے، لہٰذا اسی کا نام لو، اسی پر بھروسہ رکھو، چاہے کشتی چلتی رہے، چاہے کسی ساحل امن پر رک جائے۔

وَ قِیۡلَ یٰۤاَرۡضُ ابۡلَعِیۡ مَآءَکِ وَ یٰسَمَآءُ اَقۡلِعِیۡ وَ غِیۡضَ الۡمَآءُ وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ وَ اسۡتَوَتۡ عَلَی الۡجُوۡدِیِّ وَ قِیۡلَ بُعۡدًا لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۴۴﴾ ۞ٙ

۴۴۔ اور کہا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان! تھم جا اور پانی خشک کر دیا گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی (کوہ) جودی پر ٹھہر گئی اور کہا گیا ظالموں پر نفرین ہو۔

44۔ توریت میں آیا ہے کہ کوہ ارارات پر کشتی نوح علیہ السلام ٹھہری۔ ارارات ایک کوہستانی سلسلہ ہے جو آرمینیا سے لے کر کردستان تک پھیلا ہوا ہے۔ قرآن نے تو اس چوٹی کا بھی ذکر کیا ہے جس پر نوح علیہ السلام کی کشتی ٹھہری تھی۔ یعنی جودی۔ چنانچہ قبل از مسیح کی قدیم تاریخ میں کشتی کے ٹھہرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے۔

وَ نَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ وَ اِنَّ وَعۡدَکَ الۡحَقُّ وَ اَنۡتَ اَحۡکَمُ الۡحٰکِمِیۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور نوح نے اپنے رب کو پکار کر عرض کی: اے میرے رب! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

45۔ جب نوح علیہ السلام اور ان کے بیٹے کے درمیان موج حائل ہو گئی اس وقت اضطراری حالت میں پکارا ہو گا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے یہ موقف اختیار کیا کہ میرا بیٹا میرے گھر والوں میں شامل ہے اور تیرا وعدہ ہے کہ گھر والوں کو نجات مل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: تو نہیں جانتا کہ تیرا بیٹا تیرے گھر والوں میں شامل نہیں ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اس مسئلے میں ایک نکتہ نہیں جانتے تھے یا تو وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ خاندانی رشتہ کے لیے نسبی رشتہ کافی نہیں ہے، ایمانی رشتہ ضروری ہے یا یہ نہیں جانتے تھے کہ بیٹا فی الواقع مومن نہیں ہے۔ ایک اولی العزم نبی کے لیے ناممکن ہے کہ وہ پہلے نکتے کو نہ جانتا ہو،لہٰذا لازماً حضرت نوح علیہ السلام اس بات کو نہیں جانتے تھے کہ بیٹا مومن نہیں ہے۔

قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ٭۫ۖ فَلَا تَسۡـَٔلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ فرمایا: اے نوح! بے شک یہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے، یہ غیر صالح عمل ہے لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اس کی مجھ سے درخواست نہ کریں، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ مبادا نادانوں میں سے ہو جائیں۔

46۔ حضرت نوح کی جس عمل پر سرزنش کی گئی ہے وہ ممکن ہے یہ ہو کہ بیٹے کا کشتی پر سوار ہونے سے انکار معصیت نہیں، کفر ہے۔

نوح کے بیٹے کے واقعے میں ان لوگوں کے نظریات کی نفی ہے جو نسلی بنیاد پر اپنے آپ کو اللہ کی پسندیدہ قوم تصور کرتے ہیں۔ شاید بائیبل میں نوح علیہ السلام کے بیٹے کا واقعہ درج نہ ہونے کی یہی وجہ ہو کہ اس سے ان کے بنیادی عقیدے کی نفی ہوتی ہے۔

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِکَ اَنۡ اَسۡـَٔلَکَ مَا لَـیۡسَ لِیۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اِلَّا تَغۡفِرۡ لِیۡ وَ تَرۡحَمۡنِیۡۤ اَکُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔نوح نے کہا: میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا۔

قِیۡلَ یٰنُوۡحُ اہۡبِطۡ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَ بَرَکٰتٍ عَلَیۡکَ وَ عَلٰۤی اُمَمٍ مِّمَّنۡ مَّعَکَ ؕ وَ اُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمۡ ثُمَّ یَمَسُّہُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۴۸﴾

۴۸۔ کہا گیا : اے نوحؑ! اترو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ جو آپ پر اور ان جماعتوں پر ہیں جو آپ کے ساتھ ہیں اور کچھ جماعتیں ایسی بھی ہوں گی جنہیں ہم کچھ مدت زندگی کا موقع بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا۔

47۔48 زمین کو طوفان کے ذریعے کفر و طغیان سے پاک کرنے کے بعد بھی دو گروہوں کے موجود ہونے کا ذکر ہے۔ ایک حضرت نوح علیہ السلام کی معیت میں ہے۔ اس ایمانی معیت اور ہمراہی میں آنے والی نسلوں کے لیے اللہ کی طرف سے سلامتی اور برکتیں ہوں گی، جب کہ دوسرے گروہ کو دنیاوی زندگی کے مال و متاع سے لطف اندوز ہونے کے بعد عذاب الٰہی سے دو چار ہونا پڑے گا۔ یہ اس لیے ہے کہ چونکہ انسان کو آزادی و خود مختاری عطا ہوئی ہے اور دنیا میں اس کے ذریعے اسے پرکھنا ہے۔ لہٰذا حق و باطل کی جنگ جاری رہے گی اور نور و ظلمت کا آمنا سامنا ہوتا رہے گا، جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ کچھ لوگ حق کا راستہ انتخاب کریں گے اور کچھ باطل کا۔

تِلۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہَاۤ اِلَیۡکَ ۚ مَا کُنۡتَ تَعۡلَمُہَاۤ اَنۡتَ وَ لَا قَوۡمُکَ مِنۡ قَبۡلِ ہٰذَا ؕۛ فَاصۡبِرۡ ؕۛ اِنَّ الۡعَاقِبَۃَ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿٪۴۹﴾

۴۹۔ یہ ہیں غیب کی کچھ خبریں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ ان باتوں کو جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم پس صبر کریں انجام یقینا پرہیزگاروں کے لیے ہے ۔

وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا مُفۡتَرُوۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور عاد کی طرف ان کی برادری کے فرد ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، (دوسرے معبودوں کو) تم نے صرف افترا کیا ہے۔