وَ اِذۡ نَتَقۡنَا الۡجَبَلَ فَوۡقَہُمۡ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ ۚ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۷۱﴾٪

۱۷۱۔اور (یہ بات بھی یاد کرو) جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اس طرح اٹھایا گویا وہ سائبان ہو اور انہیں یہ گمان تھا کہ وہ ان پر گرنے ہی والا ہے (ہم نے ان سے کہا) جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے پوری قوت کے ساتھ اس سے متمسک رہو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید کہ تم تقویٰ والے بن جاؤ۔

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ﴿۱۷۲﴾ۙ

۱۷۲۔ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔

172۔ آیت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تخلیق انسان کے موقع پر اللہ نے اولاد آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا تھا۔ ہمارے نزدیک اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خالق نے تخلیق انسان کے موقع پر ان کی فطرت اور سرشت میں معرفت رب ودیعت فرمائی جیسا کہ انسان کی تخلیق میں کام آنے والے اربوں خلیوں کی پیدائش ایک خلیے سے ہوئی اور جو سبق ابتدائی خلیے میں موجود جین (gene) کو پڑھایا گیا ہے وہ آنے والے تمام خلیات میں بطور وراثت منتقل ہو جاتا ہے۔ انسان نے اب تک جس حد تک عالم خلیات کے اندر جھانک کر دیکھا ہے اور تخلیق و تعمیر پر مامور اس محیر العقول لشکر کی حیرت انگیز کرشمہ سازیوں کا مشاہدہ کیا ہے، اس سے یہ بات بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی نسل کو نکالا تھا تو نسل انسانی کی جبلت کے ابتدائی خلیے کو اپنی ربوبیت کا درس پڑھایا ہو اور پھر اس سے اس کا اقرار لیا ہو۔ چنانچہ انبیاء کی بعثت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: لِیَسْتَادُوھُم مِیثَاقَ فِطْرَتِہِ انہیں اس لیے بھیجا تاکہ لوگوں کو اللہ کی فطرت کا عہد و میثاق یاد دلائیں۔ (نہج البلاغۃ)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس بارے میں منقول ہے: ثبتت المعرفۃ فی قلوبہم ونسوا الموقف ۔ (المحاسن1 :241) یعنی لوگ واقعہ بھول گئے مگر معرفت دلوں میں نقش ہو گئی۔ ہم اپنے الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں: کلاس بھول گئے مگر سبق یاد ہے۔

اَوۡ تَقُوۡلُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَشۡرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ۚ اَفَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد کی اولاد ہیں، تو کیا اہل باطل کے قصور کے بدلے میں ہمیں ہلاکت میں ڈالو گے؟

وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ وَ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔اور اس طرح ہم آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں شاید کہ یہ لوٹ آئیں۔

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ﴿۱۷۵﴾

۱۷۵۔اور انہیں اس شخص کا حال سنا دیجئے جسے ہم نے اپنی آیات دیں مگر وہ انہیں چھوڑ نکلا پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔

وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۱۷۶﴾

۱۷۶۔اور اگر ہم چاہتے تو ان( آیات) کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے تو اپنے آپ کو زمین بوس کر دیا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا، لہٰذا اس کی مثال اس کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رکھے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجئے کہ شاید وہ فکر کریں۔

176۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ آیت بلعم باعور کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اسے اسم اعظم کا علم دیا گیا تھا جس سے اس کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ جب فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی طلب میں نکلا تو فرعون نے بلعم باعور سے کہا: موسیٰ علیہ السلام کے خلاف دعا کرو۔ بلعم باعور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعاقب میں نکلنے کے لیے اپنے گدھے پر سوار ہوا لیکن گدھے نے ساتھ نہ دیا اور اسم اعظم بھی ذہن سے نکل گیا۔

مفسرین و محدثین کو اختلاف ہے کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی۔ بعض کے نزدیک امیہ بن ابی صلت ہے۔ بعض کے نزدیک عامر بن نعمان راہب ہے۔ لیکن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت کا اصل شان نزول بلعم باعور کے بارے میں ہے۔ (مجمع البیان)۔

وَلَوْ شِئْنَا : اگر ہم چاہتے۔ اللہ کی مشیت ہے۔ اس کی مشیت حکمت و مصلحت کے تحت ہوتی ہے۔ اس شخص نے اگر اپنے علم پر عمل کیا ہوتا تو اس کا رتبہ بلند ہونا تھا۔ مگر اس نے بدعمل ہو کر اپنے آپ کو گرا دیا اور زمین بوس ہو گیا۔ جب علم رکھنے و الا خواہش پرست اور دنیا دار ہو جاتا ہے تو اس کی مثال کتے کی سی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے مزاج اور طبیعت میں لچک نہیں رکھتا، اسے نصیحت کرو یا اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو، وہ قابل ہدایت نہیں ہوتا۔ یعنی اس کی حرص و ہوس کی آتش بجھنے والی نہیں ہے۔

سَآءَ مَثَلَاۨ الۡقَوۡمُ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنۡفُسَہُمۡ کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۷۷﴾

۱۷۷۔ بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں۔

مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِیۡ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۱۷۸﴾

۱۷۸۔راہ راست وہ پاتا ہے جسے اللہ ہدایت عطا کرے اور جنہیں اللہ گمراہ کرے وہ خسارے میں ہیں۔

178۔حقیقی ہدایت وہ ہے جس میں اللہ کی مشیت شامل ہو۔ اللہ کی مشیت تو صرف اہل لوگوں کے بارے میں ہوتی ہے اور اس طرح گمراہ وہ ہے جس کی گمراہی میں اللہ کی مشیت شامل ہو اور اللہ کی مشیت صرف ناقابل ہدایت لوگوں کی ضلالت کے بارے میں ہوتی ہے۔

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ﴿۱۷۹﴾

۱۷۹۔ اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔

179۔ یہاں چار صورتیں قابل تصور ہیں: اول یہ کہ اللہ مومن و کافر سب کو جنت بھیج دے۔ دوم یہ کہ کافر و مومن سب کو جہنم بھیج دے۔ سوم یہ کہ مومن کو جہنم اور کافر کو جنت روانہ کرے اور چہارم یہ کہ مومن کو جنت اور کافر کو جہنم بھیج دے۔ پہلی، دوسری اور تیسری صورتیں ناممکن ہیں۔ پس چوتھی صورت ہی ممکن اور عدل و انصاف کے مطابق ضروری بھی ہے۔ اس نظام عدل کے مطابق لازم آتا ہے کہ کچھ لوگوں کو گویا جہنم ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے

وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا ۪ وَ ذَرُوا الَّذِیۡنَ یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اَسۡمَآئِہٖ ؕ سَیُجۡزَوۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۸۰﴾

۱۸۰۔اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو اور جو اللہ کے اسماء میں کج روی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔

180۔ مسمّٰی کی عظمت اور حسن سے اسم میں عظمت اور حسن آتا ہے۔ مسمی اگر آپ کا محبوب ہے تو اسم بھی شیریں محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا آداب بندگی یہی ہیں کہ اللہ کو اس کے اچھے ناموں کا ساتھ پکارا جائے۔ فریقین کی روایات میں آیا ہے کہ اللہ کے ننانوے اسمائے حسنیٰ ہیں۔ جو ان اسما کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا قبول ہو گی۔