اَوۡ یُصۡبِحَ مَآؤُہَا غَوۡرًا فَلَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ لَہٗ طَلَبًا﴿۴۱﴾

۴۱۔ یا اس کا پانی نیچے اتر جائے پھر تو اسے طلب بھی نہ کر سکے۔

وَ اُحِیۡطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصۡبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ عَلٰی مَاۤ اَنۡفَقَ فِیۡہَا وَ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا وَ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ لَمۡ اُشۡرِکۡ بِرَبِّیۡۤ اَحَدًا﴿۴۲﴾

۴۲۔ چنانچہ اس کے پھلوں کو (آفت نے) گھیر لیا پس وہ اپنے باغ کو اپنی چھتوں پر گرا پڑا دیکھ کر اس سرمائے پر کف افسوس ملتا رہ گیا جو اس نے اس باغ پر لگایا تھا اور کہنے لگا: اے کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ۔

وَ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ فِئَۃٌ یَّنۡصُرُوۡنَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ مَا کَانَ مُنۡتَصِرًا ﴿ؕ۴۳﴾

۴۳۔اور ـ(ہوا بھی یہی ہے کہ) اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کے لیے مددگار ثابت نہ ہوئی اور نہ ہی وہ بدلہ لے سکا۔

39 تا 43۔ دولت کے بارے میں مومن اپنا مؤقف بیان کرتا ہے۔ مال دولت کے حصول میں انسان کو استقلال حاصل نہیں ہے، اس میں مشیت الہی کو بھی دخل ہے۔ مال دولت کا جب مشاہدہ ہو گا تو یہ مؤقف اختیار کرنا چاہیے: مَا شَآءَ اللّٰہُ ۔ ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے اور طاقت و قوت کا سرچشمہ صرف اللہ ہے: لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ ۔

جاگیر دار کی سرمایہ دارانہ مادی سوچ کے مقابلے میں مومن اپنا مؤقف نہایت مہذب اور منطقی انداز میں پیش کرتا ہے۔ جاگیردار نے فخریہ اور غیر مہذب انداز میں کہا تھا کہ میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور افرادی طاقت میں تم سے برتر ہوں۔ مومن نے جواب میں کہا: تجھے ایک نا پائیدار جاگیر پر ناز ہے، جبکہ مجھے اس جاگیر پر ناز ہے جو میرے رب کے پاس محفوظ ہے۔ گو کہ تمہاری قدروں کے مطابق میں مال و اولاد میں تم سے کمتر ضرور ہوں لیکن الٰہی قدروں کے مطابق جس جاگیر کا میں مالک بننے والا ہوں وہ تیری نا پائیدار جاگیر سے بہتر ہے۔ تیری جاگیر آسمانی اور زمین آفت کی زد میں ہے۔ ہو سکتا ہے آسمان سے تیری جاگیر پر آفت آگرے اور زمین خشک ہو جائے۔ چنانچہ اس کے باغ کی نا پائیداری کا وقت آ گیا اور اس کا باغ تباہ ہو گیا۔ اس کے دماغ سے دولت و جاگیر کا غرور اتر گیا تو حقائق کا فہم شروع ہو گیا اور کہنے لگا: کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا اور اس دولت پر تکیہ کرنے کی جگہ اپنے رب پر تکیہ کرتا۔

ہُنَالِکَ الۡوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الۡحَقِّ ؕ ہُوَ خَیۡرٌ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ عُقۡبًا﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ یہاں سے عیاں ہوا کہ اقتدار تو خدائے برحق کے لیے مختص ہے، اس کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا انجام اچھا ہے۔

44۔ یہاں سے یعنی اس واقعہ یا مثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کل کائنات میں اقتدار اعلیٰ اللہ کے پاس ہے۔ لِلّٰہِ الۡحَقِّ سے یہ بات واضح کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اقتدار اعلیٰ ایک امر واقع اور حق و حقیقت پر مبنی ہے اور اس کے مقابلے میں آنے والی ہر چیز ایک سراب اور دھوکہ ہے۔ اگر کسی کو مال و دولت مل گئی ہے تو اس دولت کے حصول کے لیے درمیان آنے والے علل و اسباب سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ ان علل و اسباب میں اللہ نے خاصیت ودیعت فرمائی ہے۔ اس طرح ہر زرّے پر اللہ کی ولایت اور حاکمیت قائم ہے۔ اگر ان علل و اسباب سے ان کی خاصیتیں سلب ہو جائیں تو کوئی طاقت نہیں جو ان کو یہ سلب شدہ خاصیت واپس دلا دے۔

وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا کَمَآءٍ اَنۡزَلۡنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخۡتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الۡاَرۡضِ فَاَصۡبَحَ ہَشِیۡمًا تَذۡرُوۡہُ الرِّیٰحُ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ مُّقۡتَدِرًا﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور ان کے لیے دنیاوی زندگی کی یہ مثال پیش کریں: یہ زندگی اس پانی کی طرح ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی روئیدگی گھنی ہو گئی پھر وہ ریزہ ریزہ ہو گئی، ہوائیں اسے اڑاتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

اَلۡمَالُ وَ الۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ اَمَلًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور ہمیشہ باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور امید کے اعتبار سے بھی بہترین ہیں۔

46۔ اگر انسان مال و دولت کو ایک مقدس مقصد کے لیے ذریعہ نہ بنائے اور خود اسی کو مقصد قرار دے تو یہ صرف چند روزہ دنیوی زندگی کے لیے ایک عارضی زیب و زینت ہے، جبکہ نیکیاں ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں۔

شیعہ و سنی مآخذ میں کثرت سے یہ روایت ملتی ہے کہ باقیات صالحات سے مراد تسبیحات اربعہ سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ہیں۔ بعض دیگر روایات کے مطابق اس سے مراد نماز ہے۔ در حقیقت ان روایات میں باقیات صالحات کے اہم مصادیق کا ذکر ہے۔

وَ یَوۡمَ نُسَیِّرُ الۡجِبَالَ وَ تَرَی الۡاَرۡضَ بَارِزَۃً ۙ وَّ حَشَرۡنٰہُمۡ فَلَمۡ نُغَادِرۡ مِنۡہُمۡ اَحَدًا ﴿ۚ۴۷﴾

۴۷۔ اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو آپ صاف میدان دیکھیں گے اور سب کو ہم جمع کریں گے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔

وَ عُرِضُوۡا عَلٰی رَبِّکَ صَفًّا ؕ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا کَمَا خَلَقۡنٰکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍۭ ۫ بَلۡ زَعَمۡتُمۡ اَلَّنۡ نَّجۡعَلَ لَکُمۡ مَّوۡعِدًا﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور وہ صف در صف تیرے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے (تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا) تم اسی طرح ہمارے پاس آ گئے ہو جیسا کہ ہم نے پہلی بار تمہیں خلق کیا تھا، بلکہ تمہیں تو گمان تھا کہ ہم نے تمہارے لیے وعدے کا کوئی وقت مقرر نہیں کیا ہے۔

وَ وُضِعَ الۡکِتٰبُ فَتَرَی الۡمُجۡرِمِیۡنَ مُشۡفِقِیۡنَ مِمَّا فِیۡہِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ یٰوَیۡلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الۡکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ۚ وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا ؕ وَ لَا یَظۡلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا﴿٪۴۹﴾

۴۹۔ اور نامۂ اعمال (سامنے) رکھ دیا جائے گا، اس وقت آپ دیکھیں گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر ڈر رہے ہیں اور یہ کہ رہے ہیں: ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامۂ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ ان سب کو حاضر پائیں گے اور آپ کا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

49۔ جو کچھ ان لوگوں نے کیا تھا وہ ان کو اپنے سامنے حاضر پائیں گے۔ یعنی خود عمل کو حاضر پائیں گے۔ پہلے بھی ذکر ہوا ہے کہ انسان کا عمل جب ایک بار وجود میں آتا ہے تو مٹتا نہیں ہے۔ ممکن ہے قیامت کے دن اسی عمل کو دکھایا جائے اور انسان کو اس حال میں دکھایا جائے کہ وہ یہ عمل انجام دے رہا ہے، جس میں ہر چھوٹی اور بڑی حرکت نظر آئے گی اور ان کے جرائم کے عین مطابق سزا دی جائے گی۔ نہ اس کتاب کے مندرجات میں زیادتی ہو گی، نہ اس کے مطابق سزا دینے میں۔

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ ؕ اَفَتَتَّخِذُوۡنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗۤ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَ ہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور (یہ بات بھی) یاد کریں جب ہم نے فرشتوں سے کہا:آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ جنات میں سے تھا، پس وہ اپنے رب کی اطاعت سے خارج ہو گیا، تو کیا تم لوگ میرے سوا اسے اور اس کی نسل کو اپنا سرپرست بناؤ گے حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟یہ ظالموں کے لیے برا بدل ہے۔

50۔ ابلیس جنات میں سے ہونے کی وجہ سے انسان کی طرح اپنے ارادے میں خود مختار ہے۔ وہ نیکی بھی کر سکتا ہے اور برائی بھی۔ اسی لیے اس نے اطاعت الٰہی سے سرکشی کی۔