فَاِذَا جَآءَتۡہُمُ الۡحَسَنَۃُ قَالُوۡا لَنَا ہٰذِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوۡا بِمُوۡسٰی وَ مَنۡ مَّعَہٗ ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُہُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۳۱﴾

۱۳۱۔پس جب انہیں آسائش حاصل ہوتی تو کہتے: ہم اس کے مستحق ہیں اور اگر برا زمانہ آتا تو اسے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی بدشگونی ٹھہراتے، آگاہ رہو! ان کی بدشگونی اللہ کے پاس ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔

130۔131 فرعونیوں نے پہلے قحط سالی نہیں دیکھی تھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی پر قحط سالی آگئی تو بجائے اس کے کہ اس کو عذاب الہی اور معجزہ موسیٰ علیہ السلام تصور کریں، اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بدشگونی قرار دیا، حالانکہ یہ موسیٰ علیہ السلام کی بدشگونی نہیں، یہ اللہ کی طرف سے عذاب ہے۔

وَ قَالُوۡا مَہۡمَا تَاۡتِنَا بِہٖ مِنۡ اٰیَۃٍ لِّتَسۡحَرَنَا بِہَا ۙ فَمَا نَحۡنُ لَکَ بِمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۳۲﴾

۱۳۲۔ اور کہنے لگے:اے موسیٰ!ہم پر جادو کرنے کے لیے خواہ کیسی نشانی لے آؤ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔

فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الطُّوۡفَانَ وَ الۡجَرَادَ وَ الۡقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ۟ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَ کَانُوۡا قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ﴿۱۳۳﴾

۱۳۳۔پھر ہم نے بطور کھلی نشانیوں کے ان پر طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں اور خون (کا عذاب) نازل کیا مگر وہ تکبر کرتے رہے اور وہ جرائم پیشہ لوگ تھے؟

132۔ 133۔ دل میں جب کسی سے عناد آ جاتا ہے تو اس کی کوئی خوبی، دلیل اور منطق دلنشین نہیں ہوتی۔ فرعونیوں کو موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے ساتھ نہایت قلبی عناد تھا اس لیے انہوں نے صریحاً کہا: موسیٰ علیہ السلام آپ لاکھ معجزے پیش کریں، ہم ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ جیسا کہ آج مغرب اور مغرب زدہ ذہنوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ اسلام کے پیش کردہ جامع نظام حیات کو ایک معجزہ سمجھنے کی بجائے الٹا اس کے خلاف نتیجے نکالتے ہیں۔

طوفان شدید اور ہمہ گیر حادثہ کو کہتے ہیں۔ بعض نے طوفان سے مراد موت یا وبائی مرض بھی قرار دیا ہے۔ توریت میں آیا ہے کہ آسمان سے آتشیں ژالہ باری ہوئی اور مصر کے تمام شہروں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ (خروج 9: 23۔27)ـ

ٹڈی دل نے مصر کی زراعت کو تباہ کر دیا۔ توریت میں طوفان کے بعد اس کا ذکر آیا ہے۔

قمل، جوئیں یا مطلق گندے کیڑے۔ راغب نے لکھا ہے کہ قمل چھوٹی مکھیوں کو کہتے ہیں۔ توریت نے بھی چھوٹی مکھیوں کا ذکر کیا ہے کہ یہ مکھیاں مصریوں کے گھروں میں گھس جاتی تھیں، صرف بنی اسرائیل کے افراد محفوظ رہتے تھے۔

مینڈک: توریت خروج فصل 8 میں آیا ہے کہ نہریں مینڈکوں سے پر ہو گئیں وہاں سے وہ فرعونیوں کے گھروں، بستروں اور ہر جگہ پھیل جاتے تھے۔

خون: دریائے نیل مصریوں کے لیے خونین ہو گیا۔ توریت فصل 7 میں آیا ہے کہ مصریوں کے لیے ان کی نہریں، تالاب، گھاٹ اور جہاں جہاں پانی تھا سب خون ہو گئے۔ مصر کی ساری سرزمین خونین ہو گئی، لکڑی اور پتھروں میں بھی خون آگیا۔

وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیۡہِمُ الرِّجۡزُ قَالُوۡا یٰمُوۡسَی ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ لَئِنۡ کَشَفۡتَ عَنَّا الرِّجۡزَ لَنُؤۡمِنَنَّ لَکَ وَ لَنُرۡسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ﴿۱۳۴﴾ۚ

۱۳۴۔اور جب ان پر کوئی بلا نازل ہو جاتی تو کہتے:اے موسیٰ! ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کریں جیسا کہ اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے (کہ وہ آپ کی دعا سنے گا) اگر آپ نے ہم سے عذاب دور کر دیا تو ہم آپ پر ضرور ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی ضرور آپ کے ساتھ جانے دیں گے۔

134۔ تقریباً یہی مضمون توریت میں بھی ملتا ہے۔ تب فرعون نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو بلایا اور کہا کہ خداوند سے شفاعت کرو کہ مینڈکوں کو مجھ سے اور میری رعیت سے دفع کرے اور میں ان لوگوں کو جانے دوں گا۔ (خروج 9: 21۔27)

فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُمُ الرِّجۡزَ اِلٰۤی اَجَلٍ ہُمۡ بٰلِغُوۡہُ اِذَا ہُمۡ یَنۡکُثُوۡنَ﴿۱۳۵﴾

۱۳۵۔پھر جب ہم ایک مقررہ مدت کے لیے جس کو وہ پہنچنے والے تھے عذاب کو دور کر دیتے تو وہ عہد کو توڑ ڈالتے۔

فَانۡتَقَمۡنَا مِنۡہُمۡ فَاَغۡرَقۡنٰہُمۡ فِی الۡیَمِّ بِاَنَّہُمۡ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوۡا عَنۡہَا غٰفِلِیۡنَ﴿۱۳۶﴾

۱۳۶۔تب ہم نے ان سے انتقام لیا پھر انہیں دریا میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور وہ ان سے لاپرواہی برتتے تھے۔

وَ اَوۡرَثۡنَا الۡقَوۡمَ الَّذِیۡنَ کَانُوۡا یُسۡتَضۡعَفُوۡنَ مَشَارِقَ الۡاَرۡضِ وَ مَغَارِبَہَا الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ الۡحُسۡنٰی عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ بِمَا صَبَرُوۡا ؕ وَ دَمَّرۡنَا مَا کَانَ یَصۡنَعُ فِرۡعَوۡنُ وَ قَوۡمُہٗ وَ مَا کَانُوۡا یَعۡرِشُوۡنَ﴿۱۳۷﴾

۱۳۷۔اور ہم نے ان لوگوں کو جو بے بس کر دیے گئے تھے اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنایا جسے ہم نے برکتوں سے نوازا تھا اور بنی اسرائیل کے ساتھ آپ کے رب کا نیک وعدہ پورا ہو گیا کیونکہ انہوں نے صبر کیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بنایا کرتے تھے اور جو اونچی عمارتیں تعمیر کرتے تھے وہ سب کچھ ہم نے تباہ کر دیا۔

137۔ جس سر زمین کا بنی اسرائیل کو وارث بنایا گیا ہے اس کے بارے دو نظریے ہیں: ایک نظریہ یہ ہے کہ اس سرزمین سے مراد فلسطین اور شام کی سرزمین ہے۔ اس پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فلسطین کی نواحی ارض مقدس کو مبارک سرزمین کہا ہے۔

وَ جٰوَزۡنَا بِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَتَوۡا عَلٰی قَوۡمٍ یَّعۡکُفُوۡنَ عَلٰۤی اَصۡنَامٍ لَّہُمۡ ۚ قَالُوۡا یٰمُوۡسَی اجۡعَلۡ لَّنَاۤ اِلٰـہًا کَمَا لَہُمۡ اٰلِـہَۃٌ ؕ قَالَ اِنَّکُمۡ قَوۡمٌ تَجۡہَلُوۡنَ﴿۱۳۸﴾

۱۳۸۔اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کرایا تو وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچ گئے جو اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے تھے، کہنے لگے: اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایسا معبود بنا جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں، موسیٰ نے کہا: تم تو بڑی نادان قوم ہو۔

138۔ بنی اسرائیل دریا عبور کر کے جزیرہ نمائے سینا کے علاقوں میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف آبادیاں موجود تھیں، ان میں سے کسی قوم کا ذکر ہے جو بتوں کی پوجا پاٹ میں مصروف تھی۔ ممکن ہے یہ قوم عمالقہ سے متعلق ہو اور ممکن ہے عرب کا ایک قبیلہ بنی لخم ہو جو مصر کی حدود میں آباد تھا جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے۔

بعض اہل قلم کے مطابق یہاں مصری ہی آباد تھے جو اس علاقے میں موجود تانبے اور فیروزے کی کانوں کی محافظت پر مامور تھے۔ صحرائے سینا کا مغربی اور شمالی حصہ مصر کی سلطنت میں شامل تھا۔ اس علاقہ میں مفقہ نامی جگہ ایک بڑا بت خانہ تھا جس کے آثار اب بھی موجود ہیں اور اسی علاقے میں سامی قوموں کی چاند دیوی کا بت خانہ بھی تھا۔ ممکن ہے بنی اسرائیل کا گزر انہیں بت خانوں میں سے کسی سے ہوا ہو۔

اسلامی مؤرخ ابن جریح کے مطابق ان کے بت تانبے کے بنے ہوئے گوسالہ کی شکل میں تھے۔ یہ روایت قرین قیاس ہے کیونکہ یہ بات اپنی جگہ ثابت ہے قدیم مصری لوگ گوسالہ کی پرستش کرتے تھے جس کو وہ ابیس کے نام سے یاد کرتے تھے۔ بنی اسرائیل دور غلامی میں مصریوں کے ساتھ ایک طویل مدت تک گوسالہ پرستی کرتے رہے۔ چنانچہ سامری نے گوسالہ کا بت اسی بنا پر بنایا تھا کہ بنی اسرائیل اس سے خاصے مانوس تھے۔

اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا ہُمۡ فِیۡہِ وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۳۹﴾

۱۳۹۔ یہ قوم جس روش پر گامزن ہے یقینا برباد ہونے والی ہے اور جو اعمال یہ انجام دیتے ہیں وہ باطل ہیں۔

139۔ بت پرستی کا مذہب اصولاً و فروعاً درست نہیں ہے۔ جو نظریہ اور عقیدہ یہ لوگ رکھتے ہیں وہ تباہ کن عقیدہ ہے۔ مُتَبَّرٌ مَّا ہُمۡ فِیۡہِ ، کیونکہ ہلاکت کے لیے عقیدہ ہی بنیاد ہے اور اس غلط عقیدہ کی بنیاد پر بجا لانے والا عمل باطل اور بے سود ہے: وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ۔

اس کے بعد فرمایا بت پرستی اگرچہ کسی بھی قوم کو زیب نہیں دیتی مگر بنی اسرائیل تو اس وقت توحید کے علمبردار اور اقوام عالم کی قیادت کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے لیے بت پرستی نہایت ہی مجرمانہ عمل ہے۔

قَالَ اَغَیۡرَ اللّٰہِ اَبۡغِیۡکُمۡ اِلٰـہًا وَّ ہُوَ فَضَّلَکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۴۰﴾

۱۴۰۔موسیٰ نے کہا: کیا میں تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی اور معبود تلاش کروں؟ حالانکہ اس نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی ہے۔

140۔فرعون کی غلامی سے نجات حاصل کرنے اور بنی اسرائیل کے ایک آزاد اور مستقل قوم کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام پر شریعت نازل ہونا شروع ہو گئی اور احکام شریعت کا بوجھ اٹھوانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس راتوں کے لیے اپنی بارگاہ میں کوہ طور پر بلایا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن کوہ طور پر گزارے ہیں جن میں دن رات دونوں شامل تھے۔ اس کے باوجود رات کا ذکر کیا چونکہ رات کو پوری یکسوئی سے مناجات کرتے تھے، چنانچہ رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے بھی رات کے وقت کا انتخاب فرمایا۔