وَ جٰوَزۡنَا بِبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَتَوۡا عَلٰی قَوۡمٍ یَّعۡکُفُوۡنَ عَلٰۤی اَصۡنَامٍ لَّہُمۡ ۚ قَالُوۡا یٰمُوۡسَی اجۡعَلۡ لَّنَاۤ اِلٰـہًا کَمَا لَہُمۡ اٰلِـہَۃٌ ؕ قَالَ اِنَّکُمۡ قَوۡمٌ تَجۡہَلُوۡنَ﴿۱۳۸﴾
۱۳۸۔اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر پار کرایا تو وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچ گئے جو اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے تھے، کہنے لگے: اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایسا معبود بنا جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں، موسیٰ نے کہا: تم تو بڑی نادان قوم ہو۔
138۔ بنی اسرائیل دریا عبور کر کے جزیرہ نمائے سینا کے علاقوں میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف آبادیاں موجود تھیں، ان میں سے کسی قوم کا ذکر ہے جو بتوں کی پوجا پاٹ میں مصروف تھی۔ ممکن ہے یہ قوم عمالقہ سے متعلق ہو اور ممکن ہے عرب کا ایک قبیلہ بنی لخم ہو جو مصر کی حدود میں آباد تھا جیسا کہ بعض روایات میں آیا ہے۔
بعض اہل قلم کے مطابق یہاں مصری ہی آباد تھے جو اس علاقے میں موجود تانبے اور فیروزے کی کانوں کی محافظت پر مامور تھے۔ صحرائے سینا کا مغربی اور شمالی حصہ مصر کی سلطنت میں شامل تھا۔ اس علاقہ میں مفقہ نامی جگہ ایک بڑا بت خانہ تھا جس کے آثار اب بھی موجود ہیں اور اسی علاقے میں سامی قوموں کی چاند دیوی کا بت خانہ بھی تھا۔ ممکن ہے بنی اسرائیل کا گزر انہیں بت خانوں میں سے کسی سے ہوا ہو۔
اسلامی مؤرخ ابن جریح کے مطابق ان کے بت تانبے کے بنے ہوئے گوسالہ کی شکل میں تھے۔ یہ روایت قرین قیاس ہے کیونکہ یہ بات اپنی جگہ ثابت ہے قدیم مصری لوگ گوسالہ کی پرستش کرتے تھے جس کو وہ ابیس کے نام سے یاد کرتے تھے۔ بنی اسرائیل دور غلامی میں مصریوں کے ساتھ ایک طویل مدت تک گوسالہ پرستی کرتے رہے۔ چنانچہ سامری نے گوسالہ کا بت اسی بنا پر بنایا تھا کہ بنی اسرائیل اس سے خاصے مانوس تھے۔