اِنۡفِرُوۡا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔(مسلمانو)تم ہلکے ہو یا بوجھل (ہر حالت میں) نکل پڑو اور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرو، اگر تم سمجھو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔

لَوۡ کَانَ عَرَضًا قَرِیۡبًا وَّ سَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡکَ وَ لٰکِنۡۢ بَعُدَتۡ عَلَیۡہِمُ الشُّقَّۃُ ؕ وَ سَیَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ لَوِ اسۡتَطَعۡنَا لَخَرَجۡنَا مَعَکُمۡ ۚ یُہۡلِکُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ۚ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴿٪۴۲﴾

۴۲۔ اگر آسانی سے حاصل ہونے والا کوئی فائدہ ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور آپ کے پیچھے چل پڑتے لیکن یہ مسافت انہیں دور نظر آئی اور اب وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں گے: اگر ہمارے لیے ممکن ہوتا تو یقینا ہم آپ کے ساتھ چل دیتے (ایسے بہانوں سے) وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں اور اللہ کو علم ہے کہ یہ لوگ یقینا جھوٹ بول رہے ہیں۔

42۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ مکمل طور پر ایک امتحان تھی جس سے بہت سے لوگوں کی حقیقت عیاں ہو گئی اور کلام اللہ میں ان لوگوں کے ایمان کا وزن ثابت ہو گیا۔ منافقین اور خفیف الایمان لوگوں کے چہرے بے نقاب ہو گئے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ وہ جنگوں میں شرکت کرتے بھی ہیں تو آسانی سے حاصل ہونے والے مفادات کے لیے کرتے ہیں۔

عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ تَعۡلَمَ الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ (اے رسول) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی قبل اس کے کہ آپ پر واضح ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے؟

43۔ ایک طرف ان لوگوں کو اجازت دینے میں مصلحت تھی کیونکہ اگلی آیت 47 میں صریحاًفرمایا: لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا.. اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو وہ صرف خرابی میں اضافہ کرتے، اور دوسری طرف اجازت دینے کی صورت میں ان کے نفاق اور ضعف ایمانی پر پردہ پڑا رہتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے خطاب کر کے سردلبران در حدیث دیگران کا اسلوب اختیار کیا۔ یوں ان کا ضمیر بھی فاش کیا نیز ان کے شر سے لشکر اسلام بھی محفوظ رہا۔

اس مختصر بیان سے ان لوگوں کا نظریہ باطل ثابت ہوا جو صاحب وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿﴾ کو مجتہد کا درجہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ما لا نص فیہ میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اجتہادی غلطی سرزد ہو جاتی ہے اور انبیاء علیہ السلام ایسی باتوں میں، یعنی جہاں نص نہ ہو معصوم عن الخطاء نہیں ہیں۔ (المنار10:465) جب کہ ما لا نص فیہ کے معاملے میں اللہ کا حکم ہے: وَ اصۡبِرۡ حَتّٰی یَحۡکُمَ اللّٰہُ (یونس: 109) ”اللہ کا حکم آنے تک صبر کرو“۔ لہٰذا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم خدا کے بغیر فیصلے نہیں کرتے۔ ثانیاً اس نظریے سے یہ لازم آتا ہے کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم خدا آنے سے پہلے فیصلہ کرتے ہیں اور ساتھ غلطی بھی کرتے ہیں۔ یوں بیانِ احکام میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معصوم عن الخطا نہیں رہتے۔ اس طرح اساسِ اسلام منہدم ہو جاتی ہے۔ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ﴿﴾ ۔

لَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ جو لوگ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے ہرگز آپ سے اجازت نہیں مانگیں گے اور اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو خوب جانتا ہے ۔

اِنَّمَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ ارۡتَابَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ فَہُمۡ فِیۡ رَیۡبِہِمۡ یَتَرَدَّدُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ایسی اجازت یقینا وہی لوگ مانگیں گے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں مبتلا ہیں پس اس طرح وہ اپنے شک میں بھٹک رہے ہیں۔

وَ لَوۡ اَرَادُوا الۡخُرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَہٗ عُدَّۃً وَّ لٰکِنۡ کَرِہَ اللّٰہُ انۡۢبِعَاثَہُمۡ فَثَبَّطَہُمۡ وَ قِیۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے سامان کی کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ناپسند تھا اس لیے اس نے (ان سے توفیق سلب کر کے) انہیں ہلنے نہ دیا اور کہدیا گیا: تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔

46۔ جب ان لوگوں میں جہاد کا شوق نہ تھا، اللہ نے بھی ان سے توفیق کے سارے راستے بند کر دیے، جس سے بد توفیقی کے راستے کھل گئے اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخالف سمت سے آواز آئی: قِیۡلَ اقۡعُدُوۡا بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ یہ آواز ان کے لیے آشنا تھی۔ اس کی تعمیل ہو گئی۔

لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا وَّ لَا۠اَوۡضَعُوۡا خِلٰلَکُمۡ یَبۡغُوۡنَکُمُ الۡفِتۡنَۃَ ۚ وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے بھی تو تمہارے لیے صرف خرابی میں اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ کھڑا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس (اب بھی) موجود ہیں اور اللہ ظالموں کا حال خوب جانتا ہے ۔

47۔ اگر یہ منافقین اور ضعیف الایمان اسلامی لشکر میں شامل ہو جاتے تو عسکری نظم و ضبط میں خلل ڈالتے، جیسا کہ احد میں راستے سے واپس جا کر بدنظمی پھیلائی اور جنگ حنین میں ان لوگوں اور مکہ کے طلقاء نے مل کر لشکر اسلام کو شکست سے دو چار کر دیا۔ لہٰذا مصلحت اسی میں تھی کہ یہ لوگ شرکت نہ کریں۔ وَ فِیۡکُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَہُمۡ ان کی عدم شرکت کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان کے جاسوس کو بھی فتنہ انگیزی کا موقع نہ ملا۔

لَقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَۃَ مِنۡ قَبۡلُ وَ قَلَّبُوۡا لَکَ الۡاُمُوۡرَ حَتّٰی جَآءَ الۡحَقُّ وَ ظَہَرَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ یہ لوگ پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آپ کے لیے بہت سی باتوں میں الٹ پھیر بھی کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ حق آ پہنچا اور اللہ کا فیصلہ غالب ہوا اور وہ برا مانتے رہ گئے ۔

48۔ وہ اس سے پہلے احد کی جنگ میں فتنہ انگیزی کر چکے ہیں۔ منافقین راستے سے واپس چلے گئے جس سے اوس و خزرج کے قبائل بھی بد دل ہو کر واپس جانے والے تھے اور ضعیف الایمان لوگوں نے نافرمانی اور فرار اختیار کر کے مسلمانوں کو شکست سے دو چار کر دیا تھا۔ بعد میں اللہ نے چند استقامت دکھانے والے مجاہدین کے ذریعے لشکر اسلام کی محافظت فرمائی۔

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ ائۡذَنۡ لِّیۡ وَ لَا تَفۡتِنِّیۡ ؕ اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا ؕ وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیۡطَۃٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: مجھے اجازت دیجئے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے، دیکھو یہ فتنے میں پڑ چکے ہیں اور جہنم نے ان کافروں کو یقینا گھیر رکھا ہے۔

49۔ کچھ منافقین نے یہ عذر تراش لیا کہ اس جنگ میں شرکت کریں تو ممکن ہے مال غنیمت کا لالچ انہیں گمراہ کر دے یا ممکن ہے کہ وہ خوش شکلی میں مشہور رومی عورتوں پر فریفتہ ہو جائیں۔ جواب میں فرمایا: اس قسم کے فتنے میں تو تم مبتلا ہو چکے ہو۔ یہی عذر تراشی سب سے بڑا فتنہ ہے۔

اِنۡ تُصِبۡکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤۡہُمۡ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡکَ مُصِیۡبَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا قَدۡ اَخَذۡنَاۤ اَمۡرَنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ یَتَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ فَرِحُوۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اگر آپ کا بھلا ہوتا ہے تو انہیں دکھ ہوتا ہے اور اگر آپ پر کوئی مصیبت آئے تو کہتے ہیں: ہم نے پہلے ہی سے اپنا معاملہ درست کر رکھا ہے اور خوشیاں مناتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں۔

52۔یہ کائنات کے بارے میں دو مختلف تصورات و نظریات کا موازنہ ہے۔ایک کے مطابق ہر صورت میں کامیابی اور دوسرے مؤقف کے مطابق ہر صورت میں ناکامی ہے۔ مومن مجاہد کو فتح ملتی ہے تو بھی کامیابی اور اگر شہادت نصیب ہوتی ہے تو رضائے رب کا حصول اس سے بھی بڑی کامیابی ہے، جبکہ کافر کو اگر فتح ملتی ہے تو چند دنوں کے لیے وہ زندہ رہے گا اور آخرت میں ان کے لیے عذاب الیم ہے نیز اگر قتل ہو جائے تو بھی عذاب الیم ہے۔