قُلۡ لَّنۡ یُّصِیۡبَنَاۤ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ۚ ہُوَ مَوۡلٰىنَا ۚ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔کہدیجئے: اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ ہرگز پیش نہیں آتا وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں۔

5۔51 ان دو آیتوں میں فتح و شکست اور دکھ سکھ کی حالت میں مومن اور منافق کے نقطۂ نظر اور عملی کیفیت کا موازنہ ہوا ہے۔ وہ یوں کہ منافق کی نگاہ محسوسات تک محدود ہوتی ہے۔ وہ مسلمانوں کے دکھ، شکست و ناکامی پر خوش ہوتا ہے۔خود ان کے ان حالات سے دو چار نہ ہونے کو وہ اپنی حسن تدبیر اور احتیاطی پیش بندی کا نتیجہ قرار دیتا ہے جبکہ مومن کی نگاہ اپنے مولا و سرپرست پر ہوتی ہے۔ وہ وقتی فتح و شکست اور وقتی دکھ سکھ پر بھروسہ نہیں رکھتا بلکہ وہ ان تمام محسوسات سے بالاتر ہو کر اللہ کی حکمت و سرپرستی پر یقین رکھتا ہے۔یوں وہ ہر حال میں راضی بہ رضائے الٰہی رہتا ہے اور ہر حالت کو اپنے لیے عطیہ الٰہی سمجھتا ہے۔

قُلۡ ہَلۡ تَرَبَّصُوۡنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡدَی الۡحُسۡنَیَیۡنِ ؕ وَ نَحۡنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمۡ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمُ اللّٰہُ بِعَذَابٍ مِّنۡ عِنۡدِہٖۤ اَوۡ بِاَیۡدِیۡنَا ۫ۖ فَتَرَبَّصُوۡۤا اِنَّا مَعَکُمۡ مُّتَرَبِّصُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ کہدیجئے: کیا تم ہمارے بارے میں دو بھلائیوں (فتح یا شہادت) میں سے ایک ہی کے منتظر ہو اور ہم تمہارے بارے میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ خود اپنے پاس سے تمہیں عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں عذاب دلوائے، پس اب تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔

قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا لَّنۡ یُّتَقَبَّلَ مِنۡکُمۡ ؕ اِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ کہدیجئے:تم اپنا مال بخوشی خرچ کرو یا بادل نخواستہ، تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، کیونکہ تم فاسق قوم ہو۔

53۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اپنی جگہ نیک عمل ہے۔ لیکن عمل کا نیک ہونا کافی نہیں ہے بلکہ عمل کرنے والے کا نیک ہونا بھی ضروری ہے۔ مثلاً اگر کوئی فرزند باپ کو باپ نہیں مانتا تو باپ ایسے بیٹے کی کسی نیکی کو قبول نہیں کرے گا۔

وَ مَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ بِرَسُوۡلِہٖ وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ہُمۡ کُسَالٰی وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ اور ان کے خرچ کیے ہوئے مال کی قبولیت کی راہ میں بس یہی رکاوٹ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور نماز کے لیے آتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ اور راہ خدا میں تو بادل نخواستہ ہی خرچ کرتے ہیں۔

فَلَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ تَزۡہَقَ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ لہٰذا ان کے اموال اور اولاد کہیں آپ کو فریفتہ نہ کر دیں، اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے انہیں دنیاوی زندگی میں بھی عذاب دے اور کفر کی حالت میں ہی ان کی جان کنی ہو۔

55۔ لِیُعَذِّبَہُمۡ : اللہ غیر مومن کو مال و اولاد کے ذریعے دنیا ہی میں عذاب دیتا ہے۔ کیا مال مایۂ خوشحالی ہے یا اضطراب و بدحالی ہے؟ اس آیت میں فرمایا: غیر مومن کے لیے دولت ایک عذاب ہے اور ہدایت کے لیے رکاوٹ ہے۔ وَ تَزۡہَقَ اَنۡفُسُہُمۡ مال ہی کی وجہ سے وہ کفر کی حالت میں مریں گے۔

وَ یَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ اِنَّہُمۡ لَمِنۡکُمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ مِّنۡکُمۡ وَ لٰکِنَّہُمۡ قَوۡمٌ یَّفۡرَقُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری جماعت میں شامل ہیں حالانکہ وہ تمہاری جماعت میں شامل نہیں ہیں دراصل وہ بزدل لوگ ہیں۔

لَوۡ یَجِدُوۡنَ مَلۡجَاً اَوۡ مَغٰرٰتٍ اَوۡ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوۡا اِلَیۡہِ وَ ہُمۡ یَجۡمَحُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اگر انہیں کوئی پناہ گاہ یا غار یا سر چھپانے کی جگہ میسر آجائے تو وہ اس کی طرف لپکتے ہوئے جائیں گے۔

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّلۡمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ۚ فَاِنۡ اُعۡطُوۡا مِنۡہَا رَضُوۡا وَ اِنۡ لَّمۡ یُعۡطَوۡا مِنۡہَاۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡخَطُوۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صدقات(کی تقسیم)میں آپ کو طعنہ دیتے ہیں پھر اگر اس میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو بگڑ جاتے ہیں۔

58۔ ابو سعید خدری راوی ہیں کہ تقسیم زکوٰۃ و غنیمت کے بارے میں ایک بار ذوالخویصرہ تمیمی نے آکر کہا: یا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انصاف سے کام لیں۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: افسوس ہے تجھ پر! میں انصاف نہ کروں تو کون انصاف کرے گا؟ جس پر حضرت عمر نے کہا:یا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس کی گردن مار دوں؟ فرمایا:اسے رہنے دو۔ اس کے اور بھی ساتھی ہیں۔ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے۔ یہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر کمان سے۔ ان کی نشانی وہ سیاہ آدمی ہے جس کی چھاتی عورتوں کی چھاتی کی طرح ہو گی یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح۔ لوگوں میں تفرقہ کے وقت یہ لوگ نمودار ہوں گے۔ ابو سعید کہتے ہیں: گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ فرمان سنا تھا اور اس کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ علی علیہ السلام نے جب (نہروان میں) ان کو قتل کیا تو میں ان کے ہمراہ تھا۔ پس اس شخص کو سامنے لایا گیا جس کے اوصاف رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے بیان کیے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب)

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۙ وَ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ سَیُؤۡتِیۡنَا اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ رَسُوۡلُہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوۡنَ﴿٪۵۹﴾

۵۹۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہو جاتے اور کہتے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی، ہم اللہ سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔

59۔ مدینہ کے محدود معاشرے میں عربوں نے اتنی دولت ایک جگہ نہیں دیکھی تھی جو زکوۃ کے فنڈ میں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خزانے میں جمع ہوتی تھی۔ منافق اس دولت کو مسلمانوں میں تقسیم ہوتے دیکھ نہیں سکتے تھے اور جل کر حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مطعون کرنے کی کوشش کرتے اور جو کچھ ان کے حصہ میں آتا اس پر قانع بھی نہیں رہتے تھے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ زکوٰۃ سے منافقین کو بھی حصہ ملا کرتا تھا، مگر وہ صرف مادی نگاہ سے اس حصہ کو دیکھتے تھے اور اس پر راضی نہیں ہوتے تھے، نہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کسی فضل و کرم پر بھروسہ رکھتے تھے۔

ایک بار امام ابوحنیفہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ جب کھانا کھا چکے تو امام علیہ السلام نے فرمایا: الحمد للّٰہ رب العالمین ھذا منک و من رسولک ۔ رب العالمین کا شکر ہے کہ یہ روزی تیری طرف سے اور تیرے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ہے۔ ابو حنیفہ نے کہا: اے ابو عبداللہ آپ علیہ السلام نے شرک کا ارتکاب کیا۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: مقام افسوس ہے کہ اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے: وَ مَا نَقَمُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ اَغۡنٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضۡلِہٖ (توبہ: 74)۔ انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں دولت سے مالا مال کیا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا: وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۙ وَ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ سَیُؤۡتِیۡنَا اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ رَسُوۡلُہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوۡنَ (توبہ: 59) اگر یہ لوگ اللہ اور رسول کے دیے ہوئے پر خوش رہتے اور کہ دیتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی اور ہم اللہ کی طرف توجہ رکھتے ہیں۔ ابو حنیفہ نے تعجب کے لہجے میں کہا: گویا یہ آیت میں نے قرآن میں پڑھی ہی نہیں۔ (بحار الانوار 10: 216)

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۶۰﴾

۶۰۔یہ صدقات تو صرف فقیروں، مساکین اور صدقات کے کام کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو اور غلاموں کی آزادی اور قرضداروں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ایک مقرر حکم ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔