عَفَا اللّٰہُ عَنۡکَ ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَہُمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ تَعۡلَمَ الۡکٰذِبِیۡنَ﴿۴۳﴾
۴۳۔ (اے رسول) اللہ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی قبل اس کے کہ آپ پر واضح ہو جاتا کہ سچے کون ہیں اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے؟
43۔ ایک طرف ان لوگوں کو اجازت دینے میں مصلحت تھی کیونکہ اگلی آیت 47 میں صریحاًفرمایا: لَوۡ خَرَجُوۡا فِیۡکُمۡ مَّا زَادُوۡکُمۡ اِلَّا خَبَالًا.. اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو وہ صرف خرابی میں اضافہ کرتے، اور دوسری طرف اجازت دینے کی صورت میں ان کے نفاق اور ضعف ایمانی پر پردہ پڑا رہتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب سے خطاب کر کے سردلبران در حدیث دیگران کا اسلوب اختیار کیا۔ یوں ان کا ضمیر بھی فاش کیا نیز ان کے شر سے لشکر اسلام بھی محفوظ رہا۔
اس مختصر بیان سے ان لوگوں کا نظریہ باطل ثابت ہوا جو صاحب وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿﴾ کو مجتہد کا درجہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ما لا نص فیہ میں رسول ﷺ سے اجتہادی غلطی سرزد ہو جاتی ہے اور انبیاء علیہ السلام ایسی باتوں میں، یعنی جہاں نص نہ ہو معصوم عن الخطاء نہیں ہیں۔ (المنار10:465) جب کہ ما لا نص فیہ کے معاملے میں اللہ کا حکم ہے: وَ اصۡبِرۡ حَتّٰی یَحۡکُمَ اللّٰہُ (یونس: 109) ”اللہ کا حکم آنے تک صبر کرو“۔ لہٰذا رسول ﷺ حکم خدا کے بغیر فیصلے نہیں کرتے۔ ثانیاً اس نظریے سے یہ لازم آتا ہے کہ رسول ﷺ حکم خدا آنے سے پہلے فیصلہ کرتے ہیں اور ساتھ غلطی بھی کرتے ہیں۔ یوں بیانِ احکام میں رسول ﷺ معصوم عن الخطا نہیں رہتے۔ اس طرح اساسِ اسلام منہدم ہو جاتی ہے۔ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ﴿﴾ ۔