فَاِمَّا نَذۡہَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنۡہُمۡ مُّنۡتَقِمُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ پس اگر ہم آپ کو اٹھا بھی لیں تو یقینا ہم ان سے انتقام لینے والے ہیں۔

41۔ مکہ کے کفار اس تحریک کو الٰہی نہیں بلکہ صرف رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات سے مربوط سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ شخص اگر ختم ہو جائے تو تحریک بھی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ کفار کی اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا :ہمیں ان کافروں کو سزا دینا ہے، خواہ ہم آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس دنیا سے اٹھائیں یا آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کا انجام دکھا دیں۔

اَوۡ نُرِیَنَّکَ الَّذِیۡ وَعَدۡنٰہُمۡ فَاِنَّا عَلَیۡہِمۡ مُّقۡتَدِرُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ یا (آپ کی زندگی میں) آپ کو وہ (عذاب) دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے، یقینا ہم ان پر قدرت رکھنے والے ہیں

فَاسۡتَمۡسِکۡ بِالَّذِیۡۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ ۚ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۴۳﴾

۴۳۔ پس آپ کی طرف جو وحی کی گئی ہے اس سے تمسک کریں، آپ یقینا سیدھے راستے پر ہیں۔

43۔ ان تمام شدائد کا حل اس میں ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کے ذریعے ملنے والی تعلیمات کے ساتھ متمسک رہیں۔ وحی آپ کے لیے نہایت مضبوط پشتیبان ہے۔ دوسری طاقت یہ ہے کہ آپ صراط مستقیم پر ہیں، جو حق ہے۔ حق کو ثبات ہے اور باطل نے مٹ جانا ہے۔

وَ اِنَّہٗ لَذِکۡرٌ لَّکَ وَ لِقَوۡمِکَ ۚ وَ سَوۡفَ تُسۡـَٔلُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ اور یہ (قرآن) آپ کے اور آپ کی قوم کے لیے ایک نصیحت ہے اور عنقریب تم سب سے سوال کیا جائے گا۔

44۔ یہ قرآن آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قوم کے لیے ذکر ہے۔ ایک تفسیر یہ ہے: یہ قرآن آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قوم کے لیے ذکر خدا کا ذریعہ ہے۔ دوسری تفسیر میں ذکر سے مراد شرف لیا ہے۔ یعنی یہ قرآن آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قوم کے لیے ایک شرف ہے

وَ سۡـَٔلۡ مَنۡ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلۡنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحۡمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعۡبَدُوۡنَ﴿٪۴۵﴾

۴۵۔ اور جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ہیں ان سے پوچھ لیجیے: کیا ہم نے خدائے رحمن کے علاوہ معبود بنائے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے؟

45۔ سابقہ انبیاء سے پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان انبیاء نے جو تعلیمات چھوڑی ہیں، ان میں تلاش کرو۔ روایات اہل بیت علیہم السلام میں آیا ہے کہ شب معراج رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے تمام انبیاء جمع کیے گئے، پھر ان سے سوال کرنے کا حکم ہوا۔ (الاحتجاج)

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَقَالَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا، پس موسیٰ نے کہا: میں رب العالمین کا رسول ہوں۔

فَلَمَّا جَآءَہُمۡ بِاٰیٰتِنَاۤ اِذَا ہُمۡ مِّنۡہَا یَضۡحَکُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ پس جب وہ ہماری نشانیاں لے کر ان کے پاس آئے تو وہ ان نشانیوں پر ہنسنے لگے۔

وَ مَا نُرِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ اِلَّا ہِیَ اَکۡبَرُ مِنۡ اُخۡتِہَا ۫ وَ اَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡعَذَابِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور جو نشانی ہم انہیں دکھاتے تھے وہ پہلی سے بڑی ہوتی اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑ لیا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔

47۔48 ان نشانیوں سے مراد ہے: جادوگروں کا مقابلہ، شدید قحط، طوفان کے ذریعے بستیوں اور کھیتوں کی تباہی، ٹڈی دل کا تباہ کن حملہ، جوؤں اور سسریوں کا بے تحاشا پھیلنا، ملک کے گوشہ و کنار میں مینڈکوں کا سیلاب، نہروں، چشموں اور کنوؤں کے پانی کا خون میں تبدیل ہو جانا۔ ہر بار فرعون یہ وعدہ کرتا کہ اگر یہ بلا آپ علیہ السلام کی دعا سے ٹل جائے تو ہم ایمان لائیں گے۔ لیکن بلا ٹلنے پر وہ عہد شکنی کرتا تھا۔

وَ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَ السّٰحِرُ ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ ۚ اِنَّنَا لَمُہۡتَدُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔اور(عذاب دیکھ کر)کہنے لگے:اے جادوگر! تیرے رب نے تیرے نزدیک تجھ سے جو عہد کر رکھا ہے اس کے مطابق ہمارے لیے دعا کر، ہم یقینا ہدایت یافتہ ہو جائیں گے۔

فَلَمَّا کَشَفۡنَا عَنۡہُمُ الۡعَذَابَ اِذَا ہُمۡ یَنۡکُثُوۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ پھر جب ہم نے عذاب کو ان سے دور کر دیا تو وہ عہد شکنی کرنے لگے۔