وَ مَا نُرِیۡہِمۡ مِّنۡ اٰیَۃٍ اِلَّا ہِیَ اَکۡبَرُ مِنۡ اُخۡتِہَا ۫ وَ اَخَذۡنٰہُمۡ بِالۡعَذَابِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور جو نشانی ہم انہیں دکھاتے تھے وہ پہلی سے بڑی ہوتی اور ہم نے انہیں عذاب میں پکڑ لیا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔

47۔48 ان نشانیوں سے مراد ہے: جادوگروں کا مقابلہ، شدید قحط، طوفان کے ذریعے بستیوں اور کھیتوں کی تباہی، ٹڈی دل کا تباہ کن حملہ، جوؤں اور سسریوں کا بے تحاشا پھیلنا، ملک کے گوشہ و کنار میں مینڈکوں کا سیلاب، نہروں، چشموں اور کنوؤں کے پانی کا خون میں تبدیل ہو جانا۔ ہر بار فرعون یہ وعدہ کرتا کہ اگر یہ بلا آپ علیہ السلام کی دعا سے ٹل جائے تو ہم ایمان لائیں گے۔ لیکن بلا ٹلنے پر وہ عہد شکنی کرتا تھا۔