وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ بِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَ لَا بِالَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ ؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ مَوۡقُوۡفُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚۖ یَرۡجِعُ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضِۣ الۡقَوۡلَ ۚ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اَنۡتُمۡ لَکُنَّا مُؤۡمِنِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ اور کفار کہتے ہیں: ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے اور نہ (ان کتابوں پر) جو اس سے پہلے ہیں اور کاش آپ ان کا وہ حال دیکھ لیتے جب یہ ظالم اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہوں گے، (چنانچہ) جو لوگ دبے ہوئے ہوتے تھے وہ بڑا بننے والوں سے کہیں گے: اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔

31۔ جن لیڈروں، سرداروں اور مذہبی رہزنوں کی باتیں یہ لوگ دنیا میں آنکھیں بند کر کے مان لیتے تھے، وہ لوگ آخرت میں حقیقت کا مشاہدہ کریں گے۔ دنیا میں تو وہ ان کے سامنے لب کشائی نہیں کرتے تھے، لیکن آخرت میں ساری ذمہ داری ان پر ڈالیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔

قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡۤا اَنَحۡنُ صَدَدۡنٰکُمۡ عَنِ الۡہُدٰی بَعۡدَ اِذۡ جَآءَکُمۡ بَلۡ کُنۡتُمۡ مُّجۡرِمِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور بڑا بننے والے دبے رہنے والوں سے کہیں گے: ہدایت تمہارے پاس آ جانے کے بعد کیا ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟ (نہیں) بلکہ تم خود ہی مجرم ہو۔

32۔ یعنی خود تم نے اپنی آزادی کو فروخت کیا تھا۔ تم ذہنی طور پر غلام تھے اور تم اپنی مرضی سے گمراہی میں چلے گئے ورنہ تم تک حق کی دعوت پہنچ گئی تھی۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا بَلۡ مَکۡرُ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ اِذۡ تَاۡمُرُوۡنَنَاۤ اَنۡ نَّکۡفُرَ بِاللّٰہِ وَ نَجۡعَلَ لَہٗۤ اَنۡدَادًا ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ ؕ وَ جَعَلۡنَا الۡاَغۡلٰلَ فِیۡۤ اَعۡنَاقِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۳۳﴾

۳۳۔ اور کمزور لوگ بڑا بننے والوں سے کہیں گے: بلکہ یہ رات دن کی چالیں تھیں جب تم ہمیں اللہ سے کفر کرنے اور اس کے لیے ہمسر بنانے کے لیے کہتے تھے، جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل میں ندامت لیے بیٹھیں گے اور ہم کفار کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے، کیا ان کو اس کے سوا کوئی بدلہ ملے گا جس کے یہ مرتکب ہوا کرتے تھے۔

33۔ دبے ہوئے لوگ کہیں گے: تمہارے شب و روز کی فریب کاریوں کی وجہ سے ہی ہم گمراہ ہوئے تھے اور ہماری بے شعوری سے تم نے فائدہ اٹھا کر ہمیں دھوکہ دیا۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡہَاۤ ۙ اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

34۔خوش حالی اور نازو نعمت کی فراوانی سے قدریں بدل جاتی ہیں اور دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ دولت انسان کو بے نیازی کے ایک غلط احساس میں مبتلا کر دیتی ہے۔ پھر وہ باغی ہو جاتا ہے: اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ﴿﴾ اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿﴾ علق: (6۔ 7) پھر انبیاء علیہم السلام کی دعوت اور اس مراعات یافتہ طبقے کے مفادات میں ٹکراؤ ہے۔ انبیاء علیہ السلام مال کو وسیلہ سمجھتے ہیں، یہ لوگ اپنی منزل سمجھتے ہیں۔ انبیاء علیہ السلام عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں، یہ لوگ استحصال کو اپنا حق سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

وَ قَالُوۡا نَحۡنُ اَکۡثَرُ اَمۡوَالًا وَّ اَوۡلَادًا ۙ وَّ مَا نَحۡنُ بِمُعَذَّبِیۡنَ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور کہتے تھے: ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔

قُلۡ اِنَّ رَبِّیۡ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿٪۳۶﴾

۳۶۔ کہدیجئے: میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراوان اور تنگ کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

36۔ رزق کی فزونی مومن کے لیے نعمت اور کافر کے لیے عذاب کا باعث ہے۔ لہٰذا اللہ اس مومن کے رزق کی فراوانی چاہے گا جو فزونی نعمت کے امتحان میں کامیابی حاصل کرے گا اور اگر کامیابی کی امید نہ ہو تو اللہ اس پر رحم فرماتے ہوئے اسے نعمت کی فزونی سے محروم رکھے گا۔ البتہ وہ کافر پر یہ رحم نہیں کرے گا اور اسے نعمتوں سے مالا مال کرے گا تاکہ اس کے عذاب میں اضافہ ہو۔

وَ مَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ بِالَّتِیۡ تُقَرِّبُکُمۡ عِنۡدَنَا زُلۡفٰۤی اِلَّا مَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۫ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمۡ جَزَآءُ الضِّعۡفِ بِمَا عَمِلُوۡا وَ ہُمۡ فِی الۡغُرُفٰتِ اٰمِنُوۡنَ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اور تمہارے اموال و اولاد ایسے نہیں جو تمہیں ہماری قربت میں درجہ دلائیں سوائے اس کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پس ان کے اعمال کا دگنا ثواب ہے اور وہ سکون کے ساتھ بالا خانوں میں ہوں گے۔

37۔ اِلَّا مَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا کے استثنا سے معلوم ہوا کہ مومن ایمان کے سائے میں ہی مال و اولاد کے ذریعے قرب الہٰی حاصل کر لیتا ہے، مال کو فی سبیل اللہ خرچ کر کے اور اولاد کی صحیح تربیت کر کے۔ ایسی صورت میں اس کو دو گنا ثواب ملے گا۔ اول تو اس لیے کہ ایک نیکی کے بدلے میں دس نیکیاں مل جاتی ہیں، دوم یہ کہ اولاد کے اعمال صالحہ میں سے والدین کو بھی حصہ ملتا رہے گا۔

وَ الَّذِیۡنَ یَسۡعَوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیۡنَ اُولٰٓئِکَ فِی الۡعَذَابِ مُحۡضَرُوۡنَ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور جو لوگ ہماری آیات کے بارے میں سعی کرتے ہیں کہ (ہم کو) مغلوب کریں یہ لوگ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے۔

قُلۡ اِنَّ رَبِّیۡ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ وَ یَقۡدِرُ لَہٗ ؕ وَ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخۡلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔ کہدیجئے: میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فراوانی اور تنگی سے رزق دیتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہ اور دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

39۔یعنی راہ خدا میں خرچ کرنا در حقیقت خرچ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک نہایت منافع بخش معاملہ ہے کہ دنیا میں بھی اس کی جگہ اللہ مزید دیتا ہے اور آخرت میں بھی ثواب عطا فرماتا ہے۔ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے: من ایقن بالخلف سخت نفسہ بالنفقۃ (الکافی 4: 43) ”جو مزید ملنے پر یقین رکھتا ہے وہ خرچ کرنے میں سخاوت سے کام لیتا ہے۔“ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: اذا املقتم فتاجروا اللہ بالصدقۃ (وسائل الشیعۃ 9: 372) ”اگر تنگدست ہو جاؤ تو صدقہ دے کر اللہ کے ساتھ سودا کرو۔“

وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ یَقُوۡلُ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اَہٰۤؤُلَآءِ اِیَّاکُمۡ کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ اور جس دن وہ ان سب لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا: کیا یہ لوگ تمہاری پرستش کرتے تھے؟

40۔ یعنی فرشتے مشرکین کی عبادت کو تسلیم نہیں کرتے تھے، جنات قبول کرتے تھے۔ واضح رہے مشرکین تین قسم کے لوگوں کی عبادت کرتے تھے: فرشتوں، جنات اور مقدس انسانوں کی۔ فرشتوں کی عبادت اس لیے کرتے تھے کہ وہ ان سے مفادات کی طمع رکھتے تھے۔ جنات کی عبادت ان کے شر سے بچنے کے لیے کرتے تھے۔ ممکن ہے ”ہماری نہیں جنات کی عبادت کرتے ہیں“ سے مراد یہ ہو کہ بظاہر یہ ہماری عبادت کرتے تھے لیکن اس گمراہی پر ان کو جنات نے اکسایا تھا تو عبادت جنات کی ہو گئی۔