وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ اِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوۡہَاۤ ۙ اِنَّا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ کٰفِرُوۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے: جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

34۔خوش حالی اور نازو نعمت کی فراوانی سے قدریں بدل جاتی ہیں اور دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ دولت انسان کو بے نیازی کے ایک غلط احساس میں مبتلا کر دیتی ہے۔ پھر وہ باغی ہو جاتا ہے: اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ﴿﴾ اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿﴾ علق: (6۔ 7) پھر انبیاء علیہم السلام کی دعوت اور اس مراعات یافتہ طبقے کے مفادات میں ٹکراؤ ہے۔ انبیاء علیہ السلام مال کو وسیلہ سمجھتے ہیں، یہ لوگ اپنی منزل سمجھتے ہیں۔ انبیاء علیہ السلام عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں، یہ لوگ استحصال کو اپنا حق سمجھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔