تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیت 41

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

وَاعلَموا أَنَّما غَنِمتُم مِن شَيءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسولِ وَلِذِي القُربىٰ وَاليَتامىٰ وَالمَساكينِ وَابنِ السَّبيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ
خمس کے سلسلے میں ہماری گفتگو جاری تھی کہ خمس یعنی پانچواں حصہ، اس کے چھے حصے بنتے ہیں؛ ان میں سے تین امام کا حصہ ہے خدا، رسول اور ذی القربیٰ کا اور تین حصے مساکین، ابن سبیل اور یتامی یہ سادات کا حصہ ہے۔ سادات بنی ہاشم آل مطلب کا بنی ہاشم کا حق ہے، اس میں فرمایا إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ یہ غنیمت کا پانچواں اللہ اس کے رسول اور قریب ترین قربی اقرب کے تانیث ہے اقرب، نزدیک کو نزدیک رشتہ دار کو قریب کہتے ہیں زیادہ نزدیک قریب ترین کو اقرب کہتے ہیں اور اس کی تانیث قربی یعنی بہت زیادہ قریبی ترین رشتہ داروں کو دے دو۔ یتامی مساکین و ابن سبیل یعنی رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ داروں کے جو یتیم و مسکین و ابن سبیل ہے یہ خمس ان کا حق ہے ان کا حصہ ہے۔
آگے اس مطلب کے لئے چونکہ مسئلہ مالی ہے مالی مسئلہ بہت مشکل مسئلہ ہے مال انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ انسان مال کو بہت چاہتا ہے بہت سی چیزیں ہیں وہ اگر اپ کے لئے اس کی ضرورت ہے تو آپ چاہتے ہیں ضرورت نہیں ہے تو آپ نہیں چاہتے اس کو یار مجھے اس کی ضرورت نہیں لیکن مال میں ایسا نہیں ہے، مال ضرورت نہ ہو پھر بھی انسان چاہتا ہے یہ مال حب المال انسان کی انتہائی کمزور چیز ہے۔ انسان کی بڑی کمزوری ہے اس وجہ سے کہ یہ مال انسان کی خواہش کے کمزور ترین حساس ترین نکتے کے اوپر بیٹھا ہوا ہے مال اسی لئے اس مال کے راہ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت بھی بہت زیادہ ہے اگر انسان کے اندر اس کی خواہش ودیعت نہ ہوئی ہوتی تو پھر اس کو راہ خدا میں دینے کا ثواب کم ہوتا۔ انسان کی شدید خواہش کا مقابلہ کر کے انسان اپنا مال خرچ کرتا ہے دے دیتا ہے راہ خدا میں۔ وہ آیت قابل توجہ ہے مال کے سلسلے میں مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال أَمْوَالَهُمْ اپنا مال اسلام مالکیت کو قبول کرتا ہے اس لئے اپنا مال کہا ہے َيُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں كَمَثَلِ حَبَّةٍ اس دانے کی سی ہے أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ اس ایک دانے میں سات خوشے اگائ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ ہر خوشہ میں سو سو دانے ہیں ایک کے ساتھ خوشے ہر خوشے میں سو سو دانے یہ ہوگئی سات سو راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کی مثال ایک کے مقابلے میں سات سو کی ہے یعنی مال راہ خدا میں مال دینا اس قدر نیکی ہے عظیم نیکی ہے کسی جگہ فرمایا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ مقام نیکی کو نہیں پا سکوں گے جب تک اس چیز کو راہ خدا میں نہ دے جو خود تمہارے اپنی پسند کی چیز ہے تھوڑا سا دل پہ بوجھ رکھ کے دے دیا اس وقت انسان بہادر ہوتا ہے۔ اس میں فرمایا کہ اس دانہ کے مقابلے میں سات سو کا ثواب ملتا ہے اس میں انفاق مطلق انفاق کہا ہے زکواۃ ہے خمس ہو واجب ہو مستحب ہو سب شامل ہے انفاق میں۔
جو لوگ انفاق کرتے ہیں کسی کو کھانا کھلاتے ہیں ایک ٹائم کا کھانا کسی غریب و مسکین کو کھلایا اس کا پیٹ بھرا، اطعام وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا اس کے لئے سورہ هَلْ أَتَىٰ کا ایک طویل وہ منقبت نازل ہوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی اطعام کے سلسلے میں آگے فرمایا قابل توجہ بات یہ ہے مال وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ ایک کے مقابلے میں سات سو کا تو وعدہ ہوگیا پھر آگے فرمایا وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ خدا جس کے لئے چاہتا ہے اس کے لئے کئی گنا کر دیتا ہے سات سو دو گنا ہو گیا تو چودہ سو ہوگیا ہر ایک کے لئے نہیں لِمَنْ يَشَاءُ جس کو اللہ چاہتا ہے اس کو دوگنا بھی کر دیتا ہے یعنی سات سو کو دوگنا کر دیا تو ہوگیا چودہ سو، چودہ سو بھی مل سکتا ہے ہر ایک کو نہیں بلکہ لِمَنْ يَشَاءُ کو لِمَنْ يَشَاءُ کون لوگ ہوتے ہیں؟ اس میں مختلف ہے لوگ مختلف ہوتے ہیں کہ مال راہ خدا میں دینے کا اصل محرک کیا ہے اس محرک میں مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ انتہائی خلوص کے ساتھ انتہائی قربت کے ساتھ کوئی دنیاوی غرض و غایت نام نمود وغیرہ اس میں اصلاً شائبہ تک نہیں ہے ان لوگوں کے لئے يُضَاعِفُ نہ سب کے لئے۔ یہ بات بھی میں اکثر بیان کر دیتا ہے کسی نیکی کو اللہ تعالیٰ جو ہے قیمت اس کی قیمت لگاتا ہے اس نیکی کرنے والے کے حساب سے قیمت لگاتا ہے نیکی کرنے والے میں کس درجے کا حسن موجود ہے اسی درجے کی اس کی قیمت لگتی ہے۔ مثلاً مسجد میں ایک شخص سائل آتا ہے اور وہ سوال کرتا ہے کہ کوئی نہیں دیتا میں نے ایک انگوٹھی دے دی اس کو میری لئے کوئی آیت سو انگوٹھی دے دوں۔ مسجد میں اور حالت رکوع میں ہی دے دو سو بار دے دوں آیت ولایت نازل نہیں ہوگی اس لئے میرے وجود کے اندر وہ حسن نہیں جو حضرت علی عليه‌السلام کے وجود میں جو حسن وہ اصل محرک وہ الہی محرک خدائی محرک ان کے وجود کے اندر موجود تھا اس لئے اس کی زبردست قیمت لگ گئی انگوٹھی کی قیمت نہیں لگی اس انگوٹھی دینے والے کے حسن کی قیمت لگی۔ اسی طرح ایک شخص ہے وہ ایک نیکی کام کرتا ہے دوسرا بھی عیناً اسی نیکی کا کام کرتا ہے دونوں کے محرکات کا فرق ہے حساب ایک جیسا نہیں ہوگا ثواب ایک جیسا نہیں ہوگا۔
بنی اسرائیل کا ایک عابد ایک سرسبز مقام کے اوپر دن رات عبادت کرتا ہے لیکن اس کو تھوڑا سا ثواب ملتا ہے فرشتوں نے دیکھا کہ اس بندے کا ثواب بہت کم ہے اور یہ عبادت بہت کرتا ہے دن رات عبادت میں لگا رہتا ہے تھوڑا سا ثواب ملتا ہے اللہ کی بارگاہ میں فرشتوں نے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ یہ بندہ بہت عبادت کرتا ہے ثواب اس کا بہت تھوڑا ملتا ہے۔ تو اس فرشتے کو حکم ملا جاو اس کے ساتھ بیٹھ کر عبادت کرو، یہ نیچے نازل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھ کے عبادت کرنا شروع کرتا ہے۔ ایک دن اس نے کہا عابد صاحب نے یار، میری یہ جگہ جو ہے بہت سر سبز ہے بہترین گھاس یہاں ہے کاش اللہ میاں کا گدھا یہاں آ جاتا تو میں اس کو خوب گھاس کھلاتا۔ تو فرشتے تو سمجھ میں آیا کہ اس کو تو یہ جو کچھ ثواب مل رہا ہے وہ بھی زیادہ ہے اس کی معرفت اس کا محرک وہ کس خدا کی عبادت کر رہا ہے وہ ذہن میں ایک چیز کو بنا لیا اس کی عبادت کر رہا ہے خدا کی عبادت نہیں تھی، تا ہم خدا نے تفضل کیا اس کے اشتباہ کے باوجود عدم معرفت کے باوجود اس کو محروم نہیں رکھا۔ ورنہ وہ خدا کی عبادت نہیں کر رہا تھا ایک موہوم چیز کی عبادت کر رہا تھا جس کا گدھا ہوتا اس کو گدھے کی ضرورت ہوتی ہے اور گدھے کے اوپر سوال ہو کر ادھر ادھر جاتا ہے اس قسم کے خدا کی وہ عبادت کر رہا تھا یہ تو خدا نہیں ہے ایک موہوم چیز ہے۔
گفتگو یہ تھی مال انسان کے نازک ترین حساس ترین نکتہ کے اوپر بیٹھا ہوا ہوتا ہے مال مال دینا بہت مشکل چیز ہے انسان کے لئے اس لئے فرمایا یہاں پر فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ پانچواں حصہ دے دو إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْاگر تمہارے اندر ایمان ہو تو یہ بہت بڑی بات ہے إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ اگر تمہارا اللہ کے اوپر ایمان ہے تو پھر دے تو اگر تم مومن ہو تو یہ بہت بڑی تاکیدی بات تاکیدی جملہ ہے اللہ کے اوپر ایمان ہو وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا اور جو ہم نے نازل کیا ہے اپنے بندے پر اس پر ایمان ہو کیا نازل کیا ہے؟ يَوْمَ الْفُرْقَانِ فرقان کے دن جنگ بدر کو یوم فرقان کہتے ہیں حق اور باطل نمایاں فرق واضح ہونے کا دن واضح ہونے کا دن حق کا باطل کے اوپر غالب انے کا دن حق کا باطل کے اوپر غالب آنے کا دن حق کو باطل کے اوپر فتح و نصرت ملنے کا دن یوم الفرقان کہتے ہیں۔ یوم الفرقان جو ہے وہ جو نازل کیا تھا ہم نے اس کے اوپر اگر ایمان ہے تمہارا یوم الفرقان کیا نازل کیا تھا؟ وہ ابھی آپ پڑھ چکے ہیں۔
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ ۖ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ جواب دیا تھا کہ انفال اللہ اور اس کے رسول کا ہے تمہارا نہیں ہے تمہارے لئے جہاد جو واجب کیا تھا وہ مال اور دولت کے لئے تم کو لڑنے اور جہاد کرنے کا حکم نہیں دیا یہ اگر کچھ ملتا ہے یہ انفال ہے نفل ہے ایک زائد چیز ہے، اصل غرض و غایت کے علاوہ کوئی چیز ہے یہ۔ یہ جو غرض و غایت ہے وہ فتح و نصرت ہے دین کی تقویت ہے اور کلمہ حق کی بالادستی ہے وہ تھا وہ ہو چکنے کے بعد جو مال اور دولت ملتی ہے وہ ایک اضافی چیز ہے انفال ہے نفل ہے یہ جو انفال خد ا اور رسول کا مال ہے تمہارا مال نہیں ہے تم اس لئے لڑنے نہیں آئے ہو کہ کوئی مال تمہیں مل جائے اس پر تمہارا ایمان ہے کہ یہ مال تمہارا نہیں ہے خمس کے سلسلے میں یہی ارشاد فرمایا یوم الفرقان ہم نے کیا کہا تھا یہ مال تمہارا نہیں ہے ابھی یہاں بھی ہم کہتے ہیں کہ یہ مال تمہارا نہیں ہے مالک حقیقی خدا ہے تو امین ہے وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ خرچ کرو اس چیز کو جس کے اوپر تم کو خلیفہ بنایا ہے اللہ کی طرف سے نیابتاً اللہ کی اجازت سے تم خرچ کر سکتے ہو اس مال کے اوپر تم حقیقی مالک نہیں ہے اس کائنات میں ایک ہی مالک ہے حقیقی بذات خود مالک ہے وہ ہم لوگ اگر مالک ہوتے ہیں وہ بتملیک من اللہ اللہ کی طرف سے مالک بنانے پر ہم مالک ہوتے ہیں خود سے مالک نہیں ہوتے ہیں، خود سے صرف اللہ مالک ہے لہذا یوم الفرقان ہم نے کہا تھا کہ یہ تمہارا مال نہیں ہے یہ اللہ اور رسول کا مال ہے اس کے اوپر تمہارا ایمان ہے یہ مال تمہارا نہیں ہے خدا رسول کا ہے پر تمہارا ایمان ہے تو دے دو خُمُسَهُ خمس دے دو پانچواں حصہ راہ خدا میں دے دو تمہارا نہیں ہے تمہاری ملکیت نہیں ہے۔
یہی سے بعض جو اہل تقوی ہے وہ ان لوگوں کے ہاں کھانا پینا نہیں کرتے کھانا نہیں کھاتے جو خمس نہیں نکالتے جو بہت زیادہ اختیار کرتے وہ لوگ و الا اگر ایک گھر میں لوگ اگر خمس نہیں نکالتے آپ کی دعوت ہوتی ہے آپ کو پیسے دیتے ہیں خمس کے علاوہ وہ آپ کے لئے حرام نہیں ہے۔ کیوں حرام نہیں ہے اس لئے کہ اس کے پاس جو مال ہے اس میں سے جو بچت ہے بچت کے علاوہ جو مال ہے وہ سو فیصد اسی کا ہے۔ جو بچت کے علاوہ۔ ابھی سال پورا نہیں ہوا اس کے پاس لا کھوں روپیہ ہے وہ ابھی سال نہیں، بچت نہیں تو وہ اس کا ہے، اور پھر بچت کے بعد خمس کے بعد جو چار حصہ ہے وہ بھی اسی کا ہے۔ خمس آنے سے پہلے سارا مال اسی کا ہے خمس آنے کے بعد چار حصہ اسی کا ہے اور ایک حصہ اس کا نہیں ہے آپ کو جو کھلائیں گے وہ اس ایک حصہ سے تو نہیں حساب ہوگا، اس کے اپنے مال سے حساب ہوگا اس ایک حصہ کا خود ذمہ دار ہے۔ آپ اس سے پیسہ بھی لے سکتے ہیں آپ اس کے گھر میں کھانا بھی کھا سکتے ہیں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن بعض متقی لوگ زیادہ تقوی کرتے ہیں چونکہ اس کے مال میں سادات اور امام کا مال بھی ملا ہوا ہے اس نے جدا نہیں کیا ہے لہذا میں اس مال سے نہیں کھاؤں گا وہ بہت زیادہ تقوی کرنے والے لوگ یہ کرتے ہیں۔ و الا ان کے ہاں کھانا کھانا جائز ہے اور درست ہے کوئی حرج نہیں ہے فرمایا وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ یعنی دو لشکر جس وقت آمنے سامنے آئے تھے بدر کی طرف اشارہ ہے، جس دن دو لشکر آمنے سامنے آئے تھے اس دن ہم نے جو نازل کیا ہے کہ یہ مال تمہارا نہیں ہے خدا و رسول کا ہے، اس پر اگر تمہارا ایمان ہے تو یہ جو خمس جس مال کے اوپر خمس دینے کا حکم ہے یہ پورا کا پورا مال تمہارا نہیں ہے۔ یہ اللہ کا مال ہے اللہ نے تم کو اجازت دی ہے مُسْتَخْلَفِينَ قرآن کی اصطلاح ہے۔ تم کو مُسْتَخْلَف بنایا ہے جانشین بنایا ہے نائب بنایا ہے اللہ کی طرف سے مُسْتَخْلَف یعنی اللہ کی طرف سے تم مالک ہو خود سے مالک نہیں ہو اس کے اوپر اگر ایمان ہے تمہارا تو اس میں سے پانچواں حصہ دے دو راہ خدا میں۔
یہاں پہ آپ کو پہلے بتایا کہ اس قسم کے اموال کہ تین قسمیں ہیں غنیمت ہے فئی ہے اور خمس تین چیزیں ہیں۔ غنیمت کے سلسلے میں جنگ بدر میں حکم آیا کہ غنیمت کا مال اللہ اور رسول کا ہے۔ اس آیت میں اس آیت میں فرمایا کہ اس کا پانچواں اللہ اور رسول کا ہے پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا ہے۔ چار حصے کے بارے میں یہاں خاموشی اختیار کیا لہذا وہ حکم جو جنگ بدر میں نازل ہوا تھا کہ پورا کا پورا اللہ اور رسول کا ہے پورا کا پورا انفال میں تو یہ کہا تھا نا پورا کا پورا اللہ اور رسول کا اہے اس انفال میں غنیمت بھی شامل ہے انفال میں بتایا صرف غنیمت نہیں ہے انفال میں انفال میں جنگلات، وادیاں اور پہاڑ اور جس کا کوئی مالک نہیں ہے یہ جو زمینیں پڑی ہوئی ہوتی ہیں بنجر جن کا کوئی مالک نہیں ہے ان کا مالک امام ہے یعنی اسلامی سلطنت کا سربراہ مالک ہے۔ انفال جو ہے وہ اسلامی مملکت کا جو سربراہ ہے ہمارے نظریہ کے مطابق جو منصوص من اللہ سربراہ ہوتا ہے شیعہ امامیہ کے موقف کے مطابق جو اللہ کی طرف سے سربراہ کا تعین ہوتا ہے اس کو ہم لوگ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلی کا حصہ سمجھتے ہیں کہ قانون بنانا اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اللہ کے حاکمیت اعلی کا اہم حصہ ہے قانون بنانا اور اس قانون کے نافذ کرنے والوں کا تعین بھی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلی کا حصہ ہے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلی میں یہ بھی شامل ہے کہ کون ہے ہمارا امام؟ ہمارا نظریہ یہ ہے دیگر مسلمانوں کو صرف ان کی معلومات کے لئے عرض کر رہا ہوں نہ اینکہ رد و اثبات کے لئے معلومات کے لئے کہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا سربراہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے جس کو ہم منصوص من اللہ کہتے ہیں۔ اسلامی ریاست کا سربراہ کا مالک ہے انفال کا کل کے کل انفال کا اس میں غنیمت بھی شامل ہے جنگی غنائم بھی اللہ اور رسول کا۔ اس آیت میں فرمایا غنائم جو ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا ہے یعنی ریاست کے سربراہ کا حصہ ہے۔
بعض علماء و مفسرین کا موقف یہ ہے کہ آیہ خمس جو ہے وہ ناسخ بنتا ہے آیہ انفال کے لئے دوسرے صاحبان فرماتے ہیں: ناسخ نہیں بنتا ان دونوں میں کوئی ٹکراؤ تضاد نہیں ہے کہ ناسخ بن جائے انفال بھی اپنی جگہ صحیح ہے اس لئے جنگی غنیمت کے علاوہ جتنے بھی جائداد ہے جتنے بھی جنگل ہے میدان ہے غیر آباد زمینیں ہیں اس کا مالک جو ہے اسلامی ریاست کا سربراہ مالک ہوتا ہے اسلامی ریاست کا سربراہ وہ اپنے صوابدید کے مطابق اپنے رعایا میں تقسیم کرتا ہے اس میں سے ایک تقسیم یہ ہے مَنْ اَحْیَا اَرْضًا فَھِیَ لَہٗ جو کوئی کسی زمین کو آباد کرے گا وہ زمین اسی کی ہوجائے گی عام اجازت ہے اسلامی نظام کی طرف سے جس نے کہا کہ یہ اسلامی حکومت اسلامی ریاست کا سربراہ ہے اسی نے فرمایا مَنْ اَحْیَا اَرْضًا فَھِیَ لَہٗ جو زمین آباد کرتا ہے وہ زمین اسی کی ہوجاتی ہے وہ مالک ہوگا ہے تَمْلِیْک مِنَ اللہ وَمِن رَسُولِہ ہے کہ فَھِیَ لَہٗ جو آباد کاری کرتا ہے وہی مالک ہوجانا یہ خدا اور رسول کی طرف سے تملیک ہے بشرط آباد کاری تَمْلِیْک مِنَ اللہ وَ رَسُولِہ ہے انفال سب کے سب وہ خمس نہیں ہے اس میں خمس نہیں ہے انفال میں یعنی غنائم جنگی کے علاوہ جو مال انفال ہے غیر آباد زمینیں یہیں جنگل ہے پہاڑ ہے اور جس کا کوئی مالک نہیں ہے کسی نے آباد نہیں ہے ان سب کا مالک امام ہے، سو فیصد ہے۔ پانچواں حصہ نہیں ہے وہاں پر لہذا اس کو ناسخ قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں انفال اور ہے غنیمت اور ہے۔