وَ اَنۡذِرۡ بِہِ الَّذِیۡنَ یَخَافُوۡنَ اَنۡ یُّحۡشَرُوۡۤا اِلٰی رَبِّہِمۡ لَیۡسَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیۡعٌ لَّعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور آپ اس (قرآن) کے ذریعے ان لوگوں کو متنبہ کریں جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے سامنے ایسی حالت میں جمع کیے جائیں گے کہ اللہ کے سوا ان کا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ شفاعت کنندہ، شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔

51۔ اگرچہ قرآن عام لوگوں کی ہدایت کے لیے ہے تاہم اس قرآن سے صحیح استفادہ کرنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو خوف خدا دل میں رکھتے ہیں۔

وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ ؕ مَا عَلَیۡکَ مِنۡ حِسَابِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ وَّ مَا مِنۡ حِسَابِکَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَتَطۡرُدَہُمۡ فَتَکُوۡنَ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔اور جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں انہیں اپنے سے دور نہ کریں، نہ آپ پر ان کا کوئی بار حساب ہے اور نہ ہی ان پر آپ کا کوئی بار حساب ہے کہ آپ انہیں (اپنے سے) دور کر دیں پس (اگر ایسا کیا تو) آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔

52۔ شروع میں مفلوک الحال لوگوں نے ہی اسلام قبول کیا تھا، جس پر قریش طنز کرتے تھے کہ اس شخص کے گرد ہماری قوم کے ادنیٰ طبقے کے لوگ جمع ہیں۔ جیسا کہ قوم نوح نے بھی یہی طنز کیا تھا۔ (شعراء: 111) اسی طرح تمام انبیاء نے مادی اقدار اور انسانی اقدار کی جنگ لڑی ہے۔ قریش کے رئیس از روئے طنز کہتے تھے: کیا اللہ نے اپنے فضل و کرم کے لیے ہم میں سے صہیب، بلال اور خباب جیسوں کا انتخاب کیا ہے جن کے جسم سے بدبو آتی ہے؟ ہم اسلام قبول کر بھی لیں تو کیا ہمیں ان کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا؟جواب میں فرمایا:یہی اصل آزمائش ہے۔ ان اقدار کے امتحان میں آج بھی بہت سے لوگ ناکام نظر آتے ہیں۔

وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لِّیَقُوۡلُوۡۤا اَہٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِنَا ؕ اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِالشّٰکِرِیۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ اور اس طرح ہم نے ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے (یوں) آزمائش میں ڈالا کہ وہ یہ کہدیں کہ کیا ہم میں سے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے فضل و کرم کیا ہے؟ (کہدیجئے) کیا اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو بہتر نہیں جانتا؟

وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۙ اَنَّہٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡکُمۡ سُوۡٓءًۢا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَصۡلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۵۴﴾

۵۴۔اور جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان لانے والے لوگ آجائیں تو ان سے کہیے: سلام علیکم تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے کہ تم میں سے جو نادانی سے کوئی گناہ کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو وہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

54۔ زمانہ جاہلیت میں جن افراد کے ساتھ بیٹھنے کو عار سمجھا جاتا تھا انہی افراد کے بارے میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ حکم ملتا ہے کہ یہ لوگ جب آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئیں تو ان کو سلام علیکم کہیں اور عہد جاہلیت میں اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے تو اللہ معاف فرما دے گا۔

وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ وَ لِتَسۡتَبِیۡنَ سَبِیۡلُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿٪۵۵﴾

۵۵۔ اور اسی طرح آیات کو ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ مجرموں کا راستہ نمایاں ہو جائے۔

قُلۡ اِنِّیۡ نُہِیۡتُ اَنۡ اَعۡبُدَ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ قُلۡ لَّاۤ اَتَّبِعُ اَہۡوَآءَکُمۡ ۙ قَدۡ ضَلَلۡتُ اِذًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔کہدیجئے: اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو ان کی بندگی سے مجھے منع کیا گیا ہے، کہدیجئے: میں تمہاری خواہشات کی اتباع نہیں کروں گا اور اگر ایسا کروں تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ہدایت یافتہ افراد میں شامل نہیں رہوں گا۔

قُلۡ اِنِّیۡ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ کَذَّبۡتُمۡ بِہٖ ؕ مَا عِنۡدِیۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِہٖ ؕ اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ یَقُصُّ الۡحَقَّ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡفٰصِلِیۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ کہدیجئے: میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر(قائم) ہوں اور تم اس کی تکذیب کر چکے ہو، جس چیز کی تم جلدی کر رہے ہووہ میرے پاس نہیں ہے، فیصلہ تو صرف اللہ ہی کرتا ہے وہ حقیقت بیان فرماتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

قُلۡ لَّوۡ اَنَّ عِنۡدِیۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِہٖ لَقُضِیَ الۡاَمۡرُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴿۵۸﴾

۵۸۔کہدیجئے: جس چیز کی تم جلدی کر رہے ہو اگر وہ میرے پاس موجود ہوتی تو میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔

58۔ ہر امت اپنے نبی سے فیصلہ کن معجزے طلب کرتی رہی ہے اور یہی مطالبہ رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت نے بھی کر دیا۔ جواب میں فرمایا: جس چیز کی تمہیں جلدی ہے وہ میرے پاس نہیں ہے۔ فیصلہ تو اللہ نے کرنا ہے۔ وہ اگر چاہے تو تم پر عذاب نازل کرے اور قوم عاد و ثمود کی طرح تمہیں بھی ہلاک کر دے۔

وَ عِنۡدَہٗ مَفَاتِحُ الۡغَیۡبِ لَا یَعۡلَمُہَاۤ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ وَ مَا تَسۡقُطُ مِنۡ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعۡلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡاَرۡضِ وَ لَا رَطۡبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ خشکی اور سمندر کی ہر چیز سے واقف ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اس سے آگاہ ہوتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ اور خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو۔

59۔ فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ : اس کائنات میں موجود ہر شے اور یہاں رونما ہونے والے ہر واقعہ کے پیچھے ایک ایسی تحریر موجود ہے جسے آئین کی حیثیت حاصل ہے۔ اس عالم شہود میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان دفعات کے تحت رونما ہوتا ہے جو اس آئین میں درج ہیں۔ اس آئین کو کتاب مبین، ام الکتاب، کتاب مکنون اور الزبر وغیرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے: وَ کُلُّ شَیۡءٍ فَعَلُوۡہُ فِی الزُّبُرِ ۔(قمر: 52)

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ بِالَّیۡلِ وَ یَعۡلَمُ مَا جَرَحۡتُمۡ بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبۡعَثُکُمۡ فِیۡہِ لِیُقۡضٰۤی اَجَلٌ مُّسَمًّی ۚ ثُمَّ اِلَیۡہِ مَرۡجِعُکُمۡ ثُمَّ یُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ اور وہی تو ہے جو رات کو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور دن میں جو کچھ تم کرتے ہو اس کا علم رکھتا ہے پھر وہ دن میں تمہیں اٹھا دیتا ہے تاکہ معینہ مدت پوری کی جائے پھر تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

60۔ توفی، وفا پورا کرنے کے معنوں میں ہے۔ یہ لفظ موت کے لیے استعمال ہوا ہے اور نیند کے لیے بھی۔ چنانچہ ان کے بعد اٹھانے کو بعث کہتے ہیں۔ اس آیت میں نیند کے بعد اٹھنے کو بھی بعث کہا ہے: یَبۡعَثُکُمۡ ۔ کیونکہ موت اور نیند دونوں حالتوں میں انسان میں تحرک نہیں رہتا اور جب کہ مرنے کے بعد زندہ ہونے سے پھر تحرک شروع ہوتا ہے۔ نیند سے بیدار ہونے کے بعد بھی تحرک پیدا ہوتا ہے، لیل و نہار کی اس عارضی موت و حیات سے انسان اپنی زندگی پوری کرتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے۔