اِنَّہٗ مِنۡ عِبَادِنَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔

ثُمَّ اَغۡرَقۡنَا الۡاٰخَرِیۡنَ ﴿۸۲﴾

۸۲۔ پھر ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا۔

وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۸۳﴾

۸۳۔ اور ابراہیم یقینا نوح کے پیروکاروں میں سے تھے۔

83۔ شرک کے خلاف جہاد کرنے میں حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ حضرت نوح، حضرت آدم علیہما السلام کے بعد ابو البشر ٹھہرے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ابو الانبیاء ٹھہرے۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اپنے پیشرو کے مشن کو آگے چلانے والا اس کا شیعہ کہلاتا ہے۔ دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس مشن کے جاری رکھنے والے کے قلب میں غیر اللہ کا شائبہ نہ ہو۔

روایت میں آیا ہے: امام زین العابدین علیہ السلام کے دروازے پر کچھ لوگوں نے دستک دی۔ خادمہ سے فرمایا: دیکھو کون لوگ ہیں۔ کہا: آپ کے شیعہ ہیں تو آپ علیہ السلام ان کے استقبال کے لیے ایسے لپکے کہ گرنے والے تھے۔ جب ان پر نظر پڑی تو فرمایا: کَذَبُوا فَاَیْنَ السَّمْتُ فِی الْوُجُوہِ اَیْنَ اَثَرُ الْعِبَادَۃِ اَیْنَ سِیمَائُ السُّجُودِ، اِنَّمَا شِیعَتُنَا یُعْرَفُونَ بِعِبَادَتِہِمْ۔۔۔ (مستدرک الوسائل 4: 468) جھوٹ بولا۔ کہاں ہے رونق چہروں پر؟ کہاں ہے عبادت کی علامت؟ کہاں ہے سجدوں کی نشانی؟ ہمارے شیعہ اپنی عبادات سے پہچانے جاتے ہیں۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس تاریخی جہاد کا ذکر ہے جو انہوں نے شرک کے خلاف شروع فرمایا۔ واضح رہے بت شکن کے پیروکار بت شکن ہوتے ہیں۔

اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ﴿۸۴﴾

۸۴۔ جب وہ اپنے رب کی بارگاہ میں قلب سلیم لے کر آئے۔

84۔ قلب سلیم یعنی وہ دل جس میں غیر اللہ کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا مظاہرہ اس وقت کیا جب آپ کو آتش نمرود میں ڈالنے کے لیے منجنیق پر آویزاں کیا گیا تھا۔ اس وقت جبرئیل نے آپ علیہ السلام سے پوچھا تھا: کوئی حاجت ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اما الیک فلا حاجت ہے، مگر تجھ سے نہیں۔

اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَاذَا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۚ۸۵﴾

۸۵۔ جب انہوں نے اپنے باپ(چچا) اور قوم سے کہا: تم کس کی پوجا کرتے ہو؟

اَئِفۡکًا اٰلِہَۃً دُوۡنَ اللّٰہِ تُرِیۡدُوۡنَ ﴿ؕ۸۶﴾

۸۶۔ کیا اللہ کو چھوڑ کر گھڑے ہوئے معبودوں کو چاہتے ہو ؟

فَمَا ظَنُّکُمۡ بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ ربِّ عالم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟

فَنَظَرَ نَظۡرَۃً فِی النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۸۸﴾

۸۸۔ پھر انہوں نے ستاروں پر ایک نظر ڈالی،

فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ﴿۸۹﴾

۸۹۔ اور کہا: میں تو بیمار ہوں۔

89۔ ستاروں کی طرف ایک نگاہ کرکے فرمایا: میں مریض ہوں۔ قوم کے سالانہ میلے میں عدم شرکت کے لیے یہ عذر پیش فرمایا۔ ستاروں کی طرف دیکھنے کا مقصد قرآن نے بیان نہیں فرمایا۔ تاہم ستارہ پرستوں کا یہ گمان عام تھا کہ بیماری کسی ستارے کے طلوع سے مربوط ہوتی ہے۔ رہا یہ فرمانا کہ میں مریض ہوں تو اس بات پر کوئی دلیل قائم نہیں ہے کہ آپ مریض نہ تھے۔ عین ممکن ہے کہ میلے کے وقت آپ علیہ السلام کی طبیعت ناساز ہو۔ لہٰذا یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہاں مصلحتاً جھوٹ بولا، بلا دلیل بات ہے۔

فَتَوَلَّوۡا عَنۡہُ مُدۡبِرِیۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ چنانچہ وہ لوگ انہیں پیچھے چھوڑ گئے ۔