فَرَاغَ اِلٰۤی اٰلِہَتِہِمۡ فَقَالَ اَلَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿ۚ۹۱﴾

۹۱۔ پھر وہ ان کے معبودوں میں جا گھسے اور کہنے لگے: تم کھاتے کیوں نہیں ہو؟

91۔ بت پرست اپنے بتوں کے سامنے کھانے کی چیزیں رکھتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بغرض استدلال ان بتوں سے خطاب فرمایا کہ تم کھاتے کیوں نہیں اور بات کیوں نہیں کرتے؟ ورنہ جامد اور بے شعور چیزوں سے خطاب معقول نہیں ہوتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ بتوں کے سامنے کھانے کی چیزیں رکھتے تھے۔

مَا لَکُمۡ لَا تَنۡطِقُوۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم بولتے نہیں ہو؟

فَرَاغَ عَلَیۡہِمۡ ضَرۡبًۢا بِالۡیَمِیۡنِ﴿۹۳﴾

۹۳۔ پھر انہیں پوری طاقت سے مارنے لگے

93۔ منطقی انداز میں ان بتوں کی حقیقت واضح کرنے کے بعد پوری قوت سے ان بتوں کو پاش پاش کیا۔ اس طرح انسانی تاریخ میں شجاعت و دلیری کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے بت شکنی کی تاریخ رقم فرمائی۔

فَاَقۡبَلُوۡۤا اِلَیۡہِ یَزِفُّوۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ تو لوگ دوڑتے ہوئے ان کے پاس آئے۔

قَالَ اَتَعۡبُدُوۡنَ مَا تَنۡحِتُوۡنَ ﴿ۙ۹۵﴾

۹۵۔ ابراہیم نے کہا: کیا تم اسے پوجتے ہو جسے تم خود تراشتے ہو؟

95۔ خود تراشیدہ کو معبود بناتے ہو۔ جن بتوں کی اپنی شکل و صورت تمہارے تراشنے سے بنی ہو، وہ تمہاری زندگی میں کون سے نقوش چھوڑیں گے؟

وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔ حالانکہ خود تمہیں اور جو کچھ تم بناتے ہو (سب کو) اللہ نے پیدا کیا ہے۔

قَالُوا ابۡنُوۡا لَہٗ بُنۡیَانًا فَاَلۡقُوۡہُ فِی الۡجَحِیۡمِ﴿۹۷﴾

۹۷۔ انہوں نے کہا: اس کے لیے ایک عمارت تیار کرو پھر اسے آگ کے ڈھیر میں پھینک دو۔

فَاَرَادُوۡا بِہٖ کَیۡدًا فَجَعَلۡنٰہُمُ الۡاَسۡفَلِیۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔ پس انہوں نے اس کے خلاف ایک چال چلنے کا ارادہ کیا لیکن ہم نے انہیں زیر کر دیا۔

98۔ اس موضوع پر حاشیہ سورئہ انبیاء آیت 69 میں ملاحظہ ہو۔

وَ قَالَ اِنِّیۡ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ﴿۹۹﴾

۹۹۔ اور ابراہیم نے کہا: میں اپنے رب کی طرف جا رہا ہوں وہ مجھے راستہ دکھائے گا

99۔ ترک وطن کر کے کاملاً اللہ پر بھروسہ کر کے ہجرت کر رہے ہیں۔ اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے مہاجر ہیں جنہوں نے راہ خدا میں ہجرت فرمائی۔

رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ اے میرے رب! مجھے صالحین میں سے (اولاد) عطا کر۔

100۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کوئی اولاد نہ تھی۔