قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوۡلٌ تُثِیۡرُ الۡاَرۡضَ وَ لَا تَسۡقِی الۡحَرۡثَ ۚ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیۡہَا ؕ قَالُوا الۡـٰٔنَ جِئۡتَ بِالۡحَقِّ ؕ فَذَبَحُوۡہَا وَ مَا کَادُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ﴿٪۷۱﴾

۷۱۔( موسیٰ نے ) کہا: اللہ فرماتا ہے کہ وہ گائے ایسی سدھائی ہوئی نہ ہو جو ہل چلائے اور کھیتی کو پانی دے (بلکہ) وہ سالم ہو، اس پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو، کہنے لگے:اب آپ نے ٹھیک نشاندہی کی ہے، پھر انہوں نے گائے کو ذبح کر دیا حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں لگتے تھے۔

وَ اِذۡ قَتَلۡتُمۡ نَفۡسًا فَادّٰرَءۡتُمۡ فِیۡہَا ؕ وَ اللّٰہُ مُخۡرِجٌ مَّا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ ﴿ۚ۷۲﴾

۷۲۔اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا،پھر ایک دوسرے پر اس کا الزام لگانے لگے، لیکن جو بات تم چھپا رہے تھے اللہ اسے ظاہر کر نے والا تھا۔

فَقُلۡنَا اضۡرِبُوۡہُ بِبَعۡضِہَا ؕ کَذٰلِکَ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی ۙ وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔تو ہم نے کہا : گائے کا ایک حصہ اس (مقتول) کے جسم پر مارو، یوں اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔

68 تا 73۔ تفصیلات کا مطالبہ دراصل اس حکم کو ٹالنے کی کوشش تھی۔ چنانچہ آیت 71 کے آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے کی امید نہ تھی۔ یعنی وہ گائے کو ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے۔ واقعاتی ترتیب کے لحاظ سے پہلے قتل کا اور بعد میں گائے ذبح کرنے کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ یہاں آدمی کا قتل محل کلام نہیں، بلکہ گائے ذبح کرنے کے سلسلے میں اسرائیلیوں کے لیت و لعل اور ان کی سرکشی و نافرمانی کا بیان مقصود ہے، اس لیے گائے کا واقعہ پہلے مذکور ہوا۔ علاوہ ازیں سبب کے عدم بیان سے ایک تجسس پیدا ہو جاتا ہے کہ آخر گائے ذبح کرنے کا حکم کس لیے دیا جا رہا ہے؟

قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا : احکام دین کی تبلیغ کو لوگ تمسخر قرار دیتے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام تمسخر کو جاہلانہ عمل قرار دیتے ہیں اور اس سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔

اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں۔

فَذَبَحُوۡہَا : بنی اسرائیل کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وہ لوگ اگر حکم کی تعمیل میں مخلص ہوتے تو فوراً ایک گائے ذبح کر دیتے، لیکن وہ فرمانبرداری پر قلباً آمادہ نہیں تھے۔ اس لیے وہ طرح طرح کی حیل و حجت کرنے لگے۔ اس حکم سے پہلوتہی کی خاطر انہوں نے طرح طرح کے سوالات کیے۔ جب ان کے ہر بہانے کا جواب دیا گیا تو انہوں نے یہ کہ کر ٹالنے کی کوشش کی: اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ”گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی“ اور جب اس کا جواب بھی تفصیل سے ملا اور کسی قسم کے اشتباہ اور حیلے بہانے کی گنجائش نہ رہی تو مجبوراً گائے ذبح کرنی ہی پڑی۔”حالانکہ ایسا کرنے کی امید نہ تھی۔“

کچھ افراد کا یہ نظریہ ہے کہ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی سے مراد وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ ”تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے“ کی طرح نفاذ شریعت ہے جو موجب حیات و نجات ہے، مگر آیت کا ظاہری مفہوم اس تاویل کی بھی نفی کرتا ہے۔

ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الۡحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنۡہُ الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕوَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ پھر اس کے بعد بھی تمہارے دل سخت رہے، پس وہ پتھر کی مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے، کیونکہ پتھروں میں سے کوئی تو ایسا ہوتا ہے جس سے نہریں پھوٹتی ہیں اور کوئی ایسا ہے کہ جس میں شگاف پڑ جاتا ہے تو اس سے پانی بہ نکلتا ہے اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو ہیبت الٰہی سے نیچے گر پڑتا ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔

74۔ بنی اسرائیل کی سنگدلی کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ وہ اللہ کی واضح نشانیاں دیکھنے، حق ثابت ہونے، توحید و رسالت پر کافی دلائل کا مشاہدہ کرنے اور حجت خدا پوری ہونے کے بعد بھی ہدایت نہ پا سکے۔

اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ وَ قَدۡ کَانَ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوۡنَہٗ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا عَقَلُوۡہُ وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ کیا تم اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ (ان سب باتوں کے باوجود یہودی) تمہارے دین پر ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو اللہ کا کلام سنتا ہے، پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر اس میں تحریف کر دیتا ہے۔

75۔ سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جن سے بنی اسرائیل کو نوازا۔ لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے ان تمام احسانات کا شکریہ ادا کر نے کی بجائے خدا کی نافرمانی کی۔ سرکش یہودیوں کی تاریخ کے چند سیاہ باب ذکر فرمانے کے بعد اب روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہے، جو دراصل مقصود کلام ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: اَفَتَطۡمَعُوۡنَ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا لَکُمۡ ۔ کیا تم یہودیوں سے اس بات کی توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہارے دین پرایمان لے آئیں گے۔ہمارے معاصر یہودیوں کے بارے میں اس آیہ شریفہ سے یوں رہنمائی لینی چاہیے کہ کیا ان یہودیوں سے انسان دوستی، انسانی حقوق اور باہمی تعاون کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ کیا یہودی انسانی و اخلاقی اقدار پر ایمان لے آئیں گے؟ ہرگز نہیں۔

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قَالُوۡۤا اٰمَنَّا ۚۖ وَ اِذَا خَلَا بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ قَالُوۡۤا اَتُحَدِّثُوۡنَہُمۡ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیۡکُمۡ لِیُحَآجُّوۡکُمۡ بِہٖ عِنۡدَ رَبِّکُمۡ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۷۶﴾

۷۶۔ جب وہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب خلوت میں اپنے ساتھیوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: جو راز اللہ نے تمہارے لیے کھولے ہیں وہ تم ان (مسلمانوں) کو کیوں بتاتے ہو؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ وہ (مسلمان) اس بات کو تمہارے رب کے حضور تمہارے خلاف دلیل بنائیں گے؟

اَ وَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ﴿۷۷﴾

۷۷۔کیا (یہود) نہیں جانتے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے، خواہ وہ چھپائیں یا ظاہر کریں ؟

77۔ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ یہودیوں کا گمان ان کی مادی سوچ کی علامت ہے کہ اگر لوگوں سے کوئی بات چھپائی جائے تو وہ اللہ سے بھی چھپ سکتی ہے۔ وہ اپنے زعم باطل میں دلیل و حجت کو خدا سے پنہاں کر رہے ہیں، جب کہ اللہ ظاہر و باطن سب کو جانتا ہے۔

وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا یَظُنُّوۡنَ﴿۷۸﴾ ۞ؒ

۷۸۔ان میں کچھ ایسے ناخواندہ لوگ ہیں جو کتاب (توریت) کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزوؤں کے اور بس وہ اپنے خیال خام میں رہتے ہیں۔

78۔ بے علم حضرات ہمیشہ بے بنیاد امیدوں اور جھوٹی توقعات پر تکیہ کرتے ہیں۔ وہ نجات کے لیے فرائض و اعمال، اخلاق حسنہ اور احکام و حدود کی پابندیاں ضروری نہیں سمجھتے۔

فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ٭ ثُمَّ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ لِیَشۡتَرُوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَوَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا کَتَبَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ وَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو (توریت کے نام سے) ایک کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے تاکہ اس کے ذریعے ایک ناچیز معاوضہ حاصل کریں، پس ہلاکت ہو ان پر اس چیز کی وجہ سے جسے ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ہلاکت ہو ان پر اس کمائی کی وجہ سے۔

79۔ توریت کی تحریف کا مسئلہ اب ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے۔ خود یہود بھی یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتے کہ توریت بالفاظہ اللہ کا کلام ہے، بلکہ جدید تحقیقات سے تو یہاں تک عقدہ کشائی ہوئی ہے کہ توریت کے قوانین حمورابی (قدیم بابلی بادشاہ جس نے تاریخ میں سب سے پہلے قوانین سلطنت وضع کیے) کے قوانین سے ملتے جلتے ہیں۔

وَ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدَۃً ؕ قُلۡ اَتَّخَذۡتُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ عَہۡدًا فَلَنۡ یُّخۡلِفَ اللّٰہُ عَہۡدَہٗۤ اَمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور ( یہودی ) کہتے ہیں: ہمیں تو جہنم کی آگ گنتی کے چند دنوں کے علاوہ چھو نہیں سکتی۔ (اے رسول) کہدیجئے: کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے کہ اللہ اپنے عہد کے خلاف ہرگز نہیں کرے گا یا تم اللہ پر تہمت باندھ رہے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے؟

80۔ یہودیوں میں پائی جانے والی عام غلط فہمیوں، خام خیالیوں اور غلط تمناؤں کا تذکرہ ہے، جن کی بنا پر وہ اپنے آپ کو اللہ کی ایسی برگزیدہ امت سمجھتے ہیں، جس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔ ان کے زعم میں ان کا بہت زیادہ مجرم اور گنہگار شخص اگر سزا کا مستحق ٹھہرے بھی تو اسے صرف چند دنوں کے لیے سزا دی جائے گی۔