فَقُلۡنَا اضۡرِبُوۡہُ بِبَعۡضِہَا ؕ کَذٰلِکَ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی ۙ وَ یُرِیۡکُمۡ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ﴿۷۳﴾
۷۳۔تو ہم نے کہا : گائے کا ایک حصہ اس (مقتول) کے جسم پر مارو، یوں اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔
68 تا 73۔ تفصیلات کا مطالبہ دراصل اس حکم کو ٹالنے کی کوشش تھی۔ چنانچہ آیت 71 کے آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنے کی امید نہ تھی۔ یعنی وہ گائے کو ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے۔ واقعاتی ترتیب کے لحاظ سے پہلے قتل کا اور بعد میں گائے ذبح کرنے کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ یہاں آدمی کا قتل محل کلام نہیں، بلکہ گائے ذبح کرنے کے سلسلے میں اسرائیلیوں کے لیت و لعل اور ان کی سرکشی و نافرمانی کا بیان مقصود ہے، اس لیے گائے کا واقعہ پہلے مذکور ہوا۔ علاوہ ازیں سبب کے عدم بیان سے ایک تجسس پیدا ہو جاتا ہے کہ آخر گائے ذبح کرنے کا حکم کس لیے دیا جا رہا ہے؟
قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا : احکام دین کی تبلیغ کو لوگ تمسخر قرار دیتے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام تمسخر کو جاہلانہ عمل قرار دیتے ہیں اور اس سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔
اَعُوۡذُ بِاللّٰہِ اَنۡ اَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں۔
فَذَبَحُوۡہَا : بنی اسرائیل کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وہ لوگ اگر حکم کی تعمیل میں مخلص ہوتے تو فوراً ایک گائے ذبح کر دیتے، لیکن وہ فرمانبرداری پر قلباً آمادہ نہیں تھے۔ اس لیے وہ طرح طرح کی حیل و حجت کرنے لگے۔ اس حکم سے پہلوتہی کی خاطر انہوں نے طرح طرح کے سوالات کیے۔ جب ان کے ہر بہانے کا جواب دیا گیا تو انہوں نے یہ کہ کر ٹالنے کی کوشش کی: اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ”گائے ہم پر مشتبہ ہو گئی“ اور جب اس کا جواب بھی تفصیل سے ملا اور کسی قسم کے اشتباہ اور حیلے بہانے کی گنجائش نہ رہی تو مجبوراً گائے ذبح کرنی ہی پڑی۔”حالانکہ ایسا کرنے کی امید نہ تھی۔“
کچھ افراد کا یہ نظریہ ہے کہ یُحۡیِ اللّٰہُ الۡمَوۡتٰی سے مراد وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ ”تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے“ کی طرح نفاذ شریعت ہے جو موجب حیات و نجات ہے، مگر آیت کا ظاہری مفہوم اس تاویل کی بھی نفی کرتا ہے۔