وَ اللّٰہُ فَضَّلَ بَعۡضَکُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ فِی الرِّزۡقِ ۚ فَمَا الَّذِیۡنَ فُضِّلُوۡا بِرَآدِّیۡ رِزۡقِہِمۡ عَلٰی مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَہُمۡ فِیۡہِ سَوَآءٌ ؕ اَفَبِنِعۡمَۃِ اللّٰہِ یَجۡحَدُوۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت دی ہے، پھر جنہیں فضیلت دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کو دینے والے نہیں ہیں کہ دونوں اس رزق میں برابر ہو جائیں، کیا (پھر بھی) یہ لوگ اللہ کی نعمت سے انکار کرتے ہیں؟

71۔ تم آقا اور غلام کے درمیان لحاظ مراتب کے پابند ہو۔ تم اپنے غلاموں اور نوکروں کو اتنا مال و اختیار نہیں دیتے ہو کہ وہ تمہارے برابر ہو جائیں۔ پس یہ بات جو تم خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے ہو اللہ کے لیے کیسے پسند کرتے ہو۔

وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ بَنِیۡنَ وَ حَفَدَۃً وَّ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ؕ اَفَبِالۡبَاطِلِ یُؤۡمِنُوۡنَ وَ بِنِعۡمَتِ اللّٰہِ ہُمۡ یَکۡفُرُوۡنَ ﴿ۙ۷۲﴾

۷۲۔ اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں اور اس نے تمہاری ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کیے اور تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں تو کیا۔یہ لوگ باطل پر ایمان لائیں گے اور اللہ کی نعمت کا انکار کریں گے؟

72۔اللہ تمہیں ازواج اور اولاد جیسی نعمتیں عطا فرماتا ہے اور پاکیزہ ارزاق کی فراوانی کرتا ہے اور تم ایسی چیزوں پر ایمان رکھتے ہو جو باطل ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں سے اولاد مانگتے ہو، حاجات کی برآوری چاہتے ہو جو بے بنیاد اور بے حقیقت اوہام کے سوا کچھ نہیں ہیں اور جس کے ہاتھ میں یہ سب کچھ ہے اس کے دروازے پر دستک نہیں دیتے۔

وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمۡلِکُ لَہُمۡ رِزۡقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ﴿ۚ۷۳﴾

۷۳۔ اور اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ ایسوں کی پوجا کرتے ہیں جنہیں نہ آسمانوں سے کوئی رزق دینے کا اختیار ہے اور نہ زمین سے اور نہ ہی وہ اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔

73۔ یہ لوگ حقیقی رازق کو چھوڑ کر ایسے بے شعور بتوں کی پرستش کرتے ہیں جن میں سرے سے رزق دینے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ دنیا کے بادشاہوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جنہیں وسیلہ بنایا جاتا ہے ان میں شعور ہوتا ہے۔ اگر دنیا کے بادشاہوں تک رسائی کے لیے پتھر کے بت دروازوں پر نصب کیے جائیں تو یہ ایک مضحکہ ہو گا۔

فَلَا تَضۡرِبُوۡا لِلّٰہِ الۡاَمۡثَالَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ پس اللہ کے لیے مثالیں نہ دیا کرو، (ان چیزوں کو) یقینا اللہ بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا عَبۡدًا مَّمۡلُوۡکًا لَّا یَقۡدِرُ عَلٰی شَیۡءٍ وَّ مَنۡ رَّزَقۡنٰہُ مِنَّا رِزۡقًا حَسَنًا فَہُوَ یُنۡفِقُ مِنۡہُ سِرًّا وَّ جَہۡرًا ؕ ہَلۡ یَسۡتَوٗنَ ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ اللہ ایک غلام کی مثال بیان فرماتا ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کسی چیز پر قادر نہیں اور دوسرا (وہ شخص) جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق دے رکھا ہے پس وہ اس رزق میں سے پوشیدہ و علانیہ طور پر خرچ کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

74۔75 یعنی اللہ کے لیے اپنے محسوسات کی روشنی میں مثالیں نہ دیا کرو اور یہ مت کہو کہ اللہ کی بیٹیاں اور بیٹے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں رسائی حاصل کرنے کے لیے بتوں کا وسیلہ اختیار کرنا پڑتا ہے، تم صفات خدا کو نہیں جانتے ہو۔ اس باب میں صحیح مثال یہ ہے کہ مملوک اور مالک برابر نہیں ہوتے، مملوک بے بس ہوتا ہے اور مالک صاحب اختیار ہوتا ہے۔ جب ایک مجازی مالک اور مملوک برابر نہیں ہو سکتے تو حقیقی مالک اور مملوک کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟

وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلَیۡنِ اَحَدُہُمَاۤ اَبۡکَمُ لَا یَقۡدِرُ عَلٰی شَیۡءٍ وَّ ہُوَ کَلٌّ عَلٰی مَوۡلٰىہُ ۙ اَیۡنَمَا یُوَجِّہۡہُّ لَایَاۡتِ بِخَیۡرٍ ؕ ہَلۡ یَسۡتَوِیۡ ہُوَ ۙ وَ مَنۡ یَّاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ ۙ وَ ہُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿٪۷۶﴾

۷۶۔ اور اللہ دو (اور) مردوں کی مثال دیتا ہے، ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی چیز پر بھی قادر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، وہ اسے جہاں بھی بھیجے کوئی بھلائی نہیں لاتا، کیا یہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود صراط مستقیم پر قائم ہے؟

76۔ اس آیت میں اس بات کی مزید وضاحت ہے کہ اللہ اور ان کے خود ساختہ معبودوں کے درمیان فرق یہ بھی ہے کہ ایک غلام جو اپنی زندگی کا بوجھ بھی خود نہیں اٹھا سکتا، نہ کسی کی بات سن سکتا ہے، نہ خود بات کر سکتا ہے، نہ ہی کسی قسم کے کام میں آتا ہے،جبکہ اس کا آقا خود بھی راہ راست پر ہے اور دوسروں کو عدل و انصاف کی دعوت دیتا ہے، جب ایک غلام جو ہر اعتبار سے بے بس اور بے سود ہے، اس آقا کے برابر نہیں ہو سکتا جو معاشرے کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتا ہے تو اللہ اور یہ جامد بے حس پتھر کیسے برابر ہو سکتے ہیں۔

وَ لِلّٰہِ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ مَاۤ اَمۡرُ السَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمۡحِ الۡبَصَرِ اَوۡ ہُوَ اَقۡرَبُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۷۷﴾

۷۷۔ اور آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ کے لیے (خاص) ہے اور قیامت کا معاملہ تو ایسا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی قریب تر، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

77۔ قیامت پر اللہ کی مالکانہ گرفت ہے۔ اس کے آنے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہے۔ صرف ارادے کی دیر ہے، جب اللہ کا ارادہ ہو گا، چشم زدن یا اس سے بھی کم وقت میں قیامت برپا ہو گی۔

وَ اللّٰہُ اَخۡرَجَکُمۡ مِّنۡۢ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ شَیۡئًا ۙ وَّ جَعَلَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡـِٕدَۃَ ۙ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۷۸﴾

۷۸۔ اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے کہ شاید تم شکر کرو۔

78۔ تمام جانداروں میں انسان کا بچہ زیادہ بے بس اور بے خبر ہوتا ہے۔ بے بس اتنا کہ اپنا سر اپنی گردن پر بھی نہیں سنبھال سکتا اور بے خبر بھی اتنا کہ ایک عرصہ تک اپنی ماں کو بھی نہیں پہچان سکتا، لیکن اس کے باوجود انسان اس قدر ارتقا پذیر ہے کہ یہی بے بس اور بے خبر انسان تمام حیوانات کو تسخیر کرتا ہے۔

اَلَمۡ یَرَوۡا اِلَی الطَّیۡرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیۡ جَوِّ السَّمَآءِ ؕ مَا یُمۡسِکُہُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔ کیا انہوں نے ان پرندوں کو نہیں دیکھا جو فضائے آسمان میں مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا انہیں کسی نے تھام نہیں رکھا، ایمان والوں کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں

79۔اس فضائے بیکراں میں معلق پرندے بھی اللہ کی نشانیاں ہیں، اگرچہ اس کرہ ارض کو فضا میں معلق رکھنا اور اس کی پشت پر موجودات کو ٹھہرانا خود اپنی جگہ اللہ کی قابل توجہ نشانیاں ہیں، تاہم اس کرے کی فضا میں پرندوں کا معلق نظر آنا زیادہ محسوس نشانی ہے کہ کشش ثقل کے باوجود ہوا میں محو پرواز پرندوں کو اللہ ہی نے اپنے نظام فطرت کے تحت تھام رکھا ہے۔

وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ سَکَنًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنۡ جُلُوۡدِ الۡاَنۡعَامِ بُیُوۡتًا تَسۡتَخِفُّوۡنَہَا یَوۡمَ ظَعۡنِکُمۡ وَ یَوۡمَ اِقَامَتِکُمۡ ۙ وَ مِنۡ اَصۡوَافِہَا وَ اَوۡبَارِہَا وَ اَشۡعَارِہَاۤ اَثَاثًا وَّ مَتَاعًا اِلٰی حِیۡنٍ﴿۸۰﴾

۸۰۔ اور اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکون کی جگہ بنایا ہے اور اس نے جانوروں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے گھر بنائے جنہیں تم سفر کے دن اور حضر کے دن ہلکا محسوس کرتے ہو اور ان (جانوروں مثلاً بھیڑ) کی اون اور (اونٹ کی) پشم اور (بکرے کے) بالوں سے گھر کا سامان اور ایک مدت تک کے لیے (تمہارے) استعمال کی چیزیں بنائیں۔

80۔ گھر سکون اور امن و حفاظت کی جگہ ہے، اسلام گھر کی چار دیواری کو تقدس اور تحفظ دیتا ہے کہ بلا اجازت گھر میں داخل ہونا، گھر کا تجسس کرنا جائز نہیں۔ یہاں تک کہ جنگ میں بھی کسی کے گھر کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی حکومت یا فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی گھر کے مکینوں کے امن و سکون کے خلاف قدم اٹھائے۔