ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا عَبۡدًا مَّمۡلُوۡکًا لَّا یَقۡدِرُ عَلٰی شَیۡءٍ وَّ مَنۡ رَّزَقۡنٰہُ مِنَّا رِزۡقًا حَسَنًا فَہُوَ یُنۡفِقُ مِنۡہُ سِرًّا وَّ جَہۡرًا ؕ ہَلۡ یَسۡتَوٗنَ ؕ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ؕ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ اللہ ایک غلام کی مثال بیان فرماتا ہے جو دوسرے کا مملوک ہے اور خود کسی چیز پر قادر نہیں اور دوسرا (وہ شخص) جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق دے رکھا ہے پس وہ اس رزق میں سے پوشیدہ و علانیہ طور پر خرچ کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

74۔75 یعنی اللہ کے لیے اپنے محسوسات کی روشنی میں مثالیں نہ دیا کرو اور یہ مت کہو کہ اللہ کی بیٹیاں اور بیٹے ہیں اور اللہ کی بارگاہ میں رسائی حاصل کرنے کے لیے بتوں کا وسیلہ اختیار کرنا پڑتا ہے، تم صفات خدا کو نہیں جانتے ہو۔ اس باب میں صحیح مثال یہ ہے کہ مملوک اور مالک برابر نہیں ہوتے، مملوک بے بس ہوتا ہے اور مالک صاحب اختیار ہوتا ہے۔ جب ایک مجازی مالک اور مملوک برابر نہیں ہو سکتے تو حقیقی مالک اور مملوک کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟