وَ اللّٰہُ جَعَلَ لَکُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ مِّنَ الۡجِبَالِ اَکۡنَانًا وَّ جَعَلَ لَکُمۡ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمُ الۡحَرَّ وَ سَرَابِیۡلَ تَقِیۡکُمۡ بَاۡسَکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تُسۡلِمُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ اور اللہ نے تمہارے لیے اپنی پیدا کردہ چیزوں سے سائے بنائے اور پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں اور تمہارے لیے ایسی پوشاکیں بنائیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسی پوشاکیں جو تمہیں جنگ سے بچائیں، اس طرح اللہ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے شاید تم فرمانبردار بن جاؤ۔

81۔ غروب آفتاب کے بعد خود زمین کا سایہ، درخت پہاڑ دیواروں کے سائے انسانی زندگی کے لیے نہایت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ اگر یہ سائے نہ ہوتے تو تپتی زمین پر زندگی کا باقی رہنا ممکن نہ ہوتا۔ گرم ترین علاقوں میں مسافر کے لیے گرمی سے بچنے کے لیے غار بہترین جگہ ہے۔ پوشاکوں کے بارے میں گرمی سے بچانے کا ذکر کیا۔ سردی سے بچانے کا ذکر ممکن ہے اس لیے نہ کیا ہو کہ جو لباس انسان کو گرمی سے بچاتا ہے وہی سردی سے بھی بچاتا ہے۔ آپس کی جنگوں میں انسان کو تحفظ دینے والی پوشاک سے مراد زرہ ہے۔ اتمام نعمت کے بارے میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ضرورت کے لیے کسی چیز میں کمی نہیں چھوڑی ہے۔ انسانی تحفظ کے لیے مکان، سایہ، لباس، غار، زرہ وغیرہ فراہم فرمائے۔ یعنی اس پہلو میں اللہ نے نعمت پوری فرمائی۔ اس طرح انسانی ضروت اور خواہش کے دیگر پہلووں میں کوئی نقص نہیں چھوڑا۔

فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿۸۲﴾

۸۲۔ پھر اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو (اے رسول) آپ کی ذمے داری تو صرف واضح انداز میں تبلیغ کرنا ہے۔

یَعۡرِفُوۡنَ نِعۡمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنۡکِرُوۡنَہَا وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿٪۸۳﴾

۸۳۔ یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچان لیتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر تو کافر ہیں۔

وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا ثُمَّ لَا یُؤۡذَنُ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ لَا ہُمۡ یُسۡتَعۡتَبُوۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور اس روز ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے پھر کافروں کو نہ تو اجازت دی جائے گی اور نہ ہی ان سے اپنے عتاب کو دور کرنے کے لیے کہا جائے گا۔

وَ اِذَا رَاَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوا الۡعَذَابَ فَلَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ اور جب ظالم لوگ عذاب کو دیکھ لیں گے تو نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

85۔ مشاہدﮤ عذاب کا مرحلہ آنے سے پہلے، یعنی دنیا میں تو اس بات کی گنجائش ہے کہ عذاب میں تخفیف ہو یا مہلت مل جائے۔ لیکن جب اللہ کا فیصلہ نافذ ہو چکا ہو گا اور عذاب کے مشاہدے کی نوبت آ گئی ہو گی تو پھر نہ تخفیف ہو سکتی ہے، نہ ہی مہلت مل سکتی ہے۔ اسی سورہ کی آیت 29 میں اس بات کا ذکر آگیا کہ مشاہدﮤ عذاب کا مرحلہ جان کنی کے وقت آ جاتا ہے۔

وَ اِذَا رَاَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا شُرَکَآءَہُمۡ قَالُوۡا رَبَّنَا ہٰۤؤُلَآءِ شُرَکَآؤُنَا الَّذِیۡنَ کُنَّا نَدۡعُوۡا مِنۡ دُوۡنِکَ ۚ فَاَلۡقَوۡا اِلَیۡہِمُ الۡقَوۡلَ اِنَّکُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ ﴿ۚ۸۶﴾ ۞ؓ

۸۶۔ اور جنہوں نے شرک کیا ہے جب وہ اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے وہی شریک ہیں جنہیں ہم تیرے بجائے پکارتے تھے تو وہ (شرکاء) اس بات کو مسترد کر دیں گے (اور کہیں گے) بے شک تم جھوٹے ہو۔

وَ اَلۡقَوۡا اِلَی اللّٰہِ یَوۡمَئِذِۣ السَّلَمَ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اور اس دن وہ اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیں گے اور ان کی افترا پردازیاں ناپید ہو جائیں گی۔

اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ زِدۡنٰہُمۡ عَذَابًا فَوۡقَ الۡعَذَابِ بِمَا کَانُوۡا یُفۡسِدُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ جنہوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو ) راہ خدا سے روکا ان کے لیے ہم عذاب پر عذاب کا اضافہ کریں گے اس فساد کے عوض جو یہ پھیلاتے رہے۔

88۔ وہ کافر جو کفر اختیار کرنے کے ساتھ دوسروں کو راہ خدا سے روکتے بھی تھے، دوہرے جرم کے مرتکب ہیں۔ ایک کفر اور دوسرا دوسروں کو روکنا۔ اسی اعتبار سے ان کا عذاب بھی دو گنا ہو گا۔

وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ جِئۡنَا بِکَ شَہِیۡدًا عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُسۡلِمِیۡنَ﴿٪۸۹﴾

۸۹۔ اور (انہیں اس دن سے آگاہ کیجیے) جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک گواہ خود انہیں میں سے اٹھائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لے آئیں گے اور ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔

89۔ اللہ اپنی قدرت کاملہ کے باوجود اصول و ضوابط کے مطابق گواہ پیش فرماتا ہے۔ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ سے مراد ہر جماعت اور ہر صدی ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت 143 کے مطابق رسول اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گواہوں پر گواہ ہیں۔ اس لیے ہم اس آیت سے بھی یہی سمجھیں گے کہ ہٰۤؤُلَآءِ کا اشارہ گواہوں کی طرف ہے۔ اس طرح آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم ہر امت میں سے ایک گواہ خود انہیں میں سے اٹھائیں گے اور آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان (گواہوں) پر گواہ بنا کر لے آئیں گے اور سورہ زمر کی آیت 69 سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبروں کے علاوہ بھی گواہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا کوئی عصر گواہ اور حجت سے خالی نہ ہو گا۔ اس شاہد میں دو باتوں کا ہونا ضروری ہے: ایک یہ کہ وہ خطا نہ کرتا ہو، ورنہ بقول رازی: ”اس کے لیے بھی گواہ کی ضرورت ہو گی اور اس کا سلسلہ کہیں بھی نہ رکے گا، لہٰذا ہر زمانے میں ایسے افراد موجود ہونے چاہئیں جن کی گفتار حجت ہو۔“ (تفسیر فخر الدین رازی 30: 98) فخر الدین رازی نے امت کو معصوم از خطا اور شاہد قرار دے کر اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ جواب اس لیے درست نہیں کہ اجماع امت اعمال امت پر ناظر کیسے ہو سکتا ہے۔اس صورت میں آیت کی ترکیب یہ بنتی ہے: و یوم نبعث فی کل امۃ اجماعھا ۔ اجماع قابل بعثت نہیں ہے، لہٰذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر امت میں ایسی ہستیاں موجود رہتی ہیں جو معصوم ہیں اور اعمال امت پر ناظر ہیں۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ یقینا اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔

90۔ عدل کے بارے میں سورﮤ مائدہ آیت 8 میں تشریح ملاحظہ فرمائیں۔اس آیت میں جہاں عدل و انصاف کا حکم ہے وہاں احسان کا بھی حکم ہے۔ عدل یہ ہے کہ کسی نے آپ پر ظلم کیا ہے تو اس کا بدلہ لیں۔ احسان یہ ہے کہ معذرت کرنے کی صورت میں اس کو معاف کر دیں۔ عدل یہ ہے کہ مقروض سے قرض وصول کریں، جبکہ احسان یہ ہے کہ مقروض کے نادار ہونے کی صورت میں اسے معاف کر دیں۔ عدل سے معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے تو احسان سے حلاوت اور شیرینی پیدا ہوتی ہے۔ ظلم کے مارے لوگوں کو جہاں عدل کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں حالات و گردش ایام کے مارے لوگوں کو احسان کی ضرورت ہے۔