وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا رَّجُلَیۡنِ اَحَدُہُمَاۤ اَبۡکَمُ لَا یَقۡدِرُ عَلٰی شَیۡءٍ وَّ ہُوَ کَلٌّ عَلٰی مَوۡلٰىہُ ۙ اَیۡنَمَا یُوَجِّہۡہُّ لَایَاۡتِ بِخَیۡرٍ ؕ ہَلۡ یَسۡتَوِیۡ ہُوَ ۙ وَ مَنۡ یَّاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ ۙ وَ ہُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿٪۷۶﴾

۷۶۔ اور اللہ دو (اور) مردوں کی مثال دیتا ہے، ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی چیز پر بھی قادر نہیں ہے بلکہ وہ اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، وہ اسے جہاں بھی بھیجے کوئی بھلائی نہیں لاتا، کیا یہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود صراط مستقیم پر قائم ہے؟

76۔ اس آیت میں اس بات کی مزید وضاحت ہے کہ اللہ اور ان کے خود ساختہ معبودوں کے درمیان فرق یہ بھی ہے کہ ایک غلام جو اپنی زندگی کا بوجھ بھی خود نہیں اٹھا سکتا، نہ کسی کی بات سن سکتا ہے، نہ خود بات کر سکتا ہے، نہ ہی کسی قسم کے کام میں آتا ہے،جبکہ اس کا آقا خود بھی راہ راست پر ہے اور دوسروں کو عدل و انصاف کی دعوت دیتا ہے، جب ایک غلام جو ہر اعتبار سے بے بس اور بے سود ہے، اس آقا کے برابر نہیں ہو سکتا جو معاشرے کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتا ہے تو اللہ اور یہ جامد بے حس پتھر کیسے برابر ہو سکتے ہیں۔