فَلَمَّا تَرَآءَ الۡجَمۡعٰنِ قَالَ اَصۡحٰبُ مُوۡسٰۤی اِنَّا لَمُدۡرَکُوۡنَ ﴿ۚ۶۱﴾

۶۱۔ جب دونوں گروہ ایک دوسرے کو دکھائی دینے لگے تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا: ہم تو پکڑے جانے والے ہیں۔

61۔ قَالَ اَصۡحٰبُ مُوۡسٰۤی : حضرت موسیٰ کے صحابیوں نے کہا: ہم تو پکڑے جانے والے ہیں۔ ظاہری صورت حال دیکھ کر ہر ظاہر بین کا یہی خیال ہو سکتا تھا کہ ہم فرعونی لشکر کی زد میں آنے والے ہیں۔ صرف راز دان کو علم تھا کہ کون کس کی زد میں آنے والا ہے۔

قَالَ کَلَّا ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ﴿۶۲﴾

۶۲۔ موسیٰ نے کہا: ہرگز نہیں! میرا رب یقینا میرے ساتھ ہے، وہ مجھے راستہ دکھا دے گا۔

62۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ : میرا رب میرے ساتھ ہے۔ ابتدائے رسالت میں اللہ کا وعدہ تھا۔ اِنَّنِیۡ مَعَکُمَاۤ (طٰہ:46) میں تم دونوں کے ساتھ ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسی خاص معیت پر بھروسہ تھا کہ اس مشکل سے نکلنے کا راستہ وہی بتا دے گا۔

فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡبَحۡرَ ؕ فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ ﴿ۚ۶۳﴾

۶۳۔ پھر ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی اپنا عصا سمندر پر ماریں چنانچہ سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر حصہ عظیم پہاڑ کی طرح ہو گیا۔

63۔ ہر حصے کا پہاڑ کی طرح ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ کوئی معمول کا مد و جزر نہیں تھا بلکہ ایک واضح معجزہ تھا جس کی توجیہ عام طبیعیاتی دفعات کے مطابق کرنا بڑی غلطی ہے۔

وَ اَزۡلَفۡنَا ثَمَّ الۡاٰخَرِیۡنَ ﴿ۚ۶۴﴾

۶۴۔ اور وہاں ہم نے دوسرے گروہ کو بھی نزدیک کر دیا ،

وَ اَنۡجَیۡنَا مُوۡسٰی وَ مَنۡ مَّعَہٗۤ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۚ۶۵﴾

۶۵۔ پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے تمام ساتھیوں کو بچا لیا۔

ثُمَّ اَغۡرَقۡنَا الۡاٰخَرِیۡنَ ﴿ؕ۶۶﴾

۶۶۔ اس کے بعد دوسروں کو غرق کر دیا۔

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً ؕ وَ مَا کَانَ اَکۡثَرُہُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ اس واقعے میں ایک نشانی ہے پھر بھی ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائے۔

67۔ یعنی بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون کے غرق ہونے کا درس آموز واقعہ پیش آنے کے باوجود لوگ ایمان نہیں لائے۔ اس قصے سے یہ باور کرانا مقصود ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان نہیں لانا، وہ معجزوں سے بھی ایمان نہیں لاتے۔ اگر ایسا ہوتا تو موسیٰ علیہ السلام نے سب سے زیادہ اور عظیم معجزے دکھائے تھے۔ اس کے باوجود اکثر اپنے کفر پر ڈٹے رہے۔

وَ اِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ﴿٪۶۸﴾

۶۸۔ اور یقینا آپ کا رب ہی بڑا غالب آنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۘ۶۹﴾

۶۹۔ اور انہیں ابراہیم کا واقعہ (بھی) سنا دیجئے:

69۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ پوری اہمیت کے ساتھ اس لیے بیان کیا جاتا ہے کہ قریش اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیرو کہتے تھے۔ اس لیے اس بات کی طرف متوجہ کرانا ضروری تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دین پیش کیا ہے وہ توحید کا دین ہے، وہی دین، جو آج رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیش کر رہے ہیں۔

اِذۡ قَالَ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖ مَا تَعۡبُدُوۡنَ﴿۷۰﴾

۷۰۔ انہوں نے اپنے باپ (چچا) اور اپنی قوم سے کہا: تم کس چیز کو پوجتے ہو؟