اِنَّا نَطۡمَعُ اَنۡ یَّغۡفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ اَنۡ کُنَّاۤ اَوَّلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿ؕ٪۵۱﴾

۵۱۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا کیونکہ ہم سب سے پہلے ایمان لائے ہیں۔

اَوَّلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ : اول مومنین ہونے کی وجہ سے ایثار و ایمان کی مثال قائم ہو جاتی ہے۔ جس کو آنے والی نسلیں مشعل راہ بناتی ہیں۔

وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡۤ اِنَّکُمۡ مُّتَّبَعُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو لے کر رات کو نکل پڑیں یقینا آپ کا تعاقب کیا جائے گا۔

52۔ اس واقعہ کے بعد سے لے کر بنی اسرائیل کے خروج تک کے عرصہ کا یہاں ذکر نہیں ہے۔ اس کا ذکر سورہ اعراف میں آگیا ہے۔

فَاَرۡسَلَ فِرۡعَوۡنُ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ ﴿ۚ۵۳﴾

۵۳۔(ادھر) فرعون نے شہروں میں ہرکارے بھیج دیے،

اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ لَشِرۡ ذِمَۃٌ قَلِیۡلُوۡنَ ﴿ۙ۵۴﴾

۵۴۔ (ان کے ساتھ یہ کہلا بھیجا) کہ بے شک یہ لوگ چھوٹی سی جماعت ہیں۔

54۔ یعنی بنی اسرائیل کی پوری قوم فرعون کے لشکر کے مقابلے میں چھوٹی جماعت تھی۔ اس سے یہ روایت قرین واقع معلوم نہیں ہوتی جس میں کہا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ سے زائد تھی۔

وَ اِنَّہُمۡ لَنَا لَغَآئِظُوۡنَ ﴿ۙ۵۵﴾

۵۵۔ اور انہوں نے ہمیں بہت غصہ دلایا ہے۔

وَ اِنَّا لَجَمِیۡعٌ حٰذِرُوۡنَ ﴿ؕ۵۶﴾

۵۶۔ اور اب ہم سب پوری طرح مستعد ہیں۔

فَاَخۡرَجۡنٰہُمۡ مِّنۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۙ۵۷﴾

۵۷۔ چنانچہ ہم نے انہیں باغوں اور چشموں سے نکال دیا ہے۔

وَّ کُنُوۡزٍ وَّ مَقَامٍ کَرِیۡمٍ ﴿ۙ۵۸﴾

۵۸۔ اور خزانوں اور بہترین رہائش گاہوں سے بھی۔

کَذٰلِکَ ؕ وَ اَوۡرَثۡنٰہَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿ؕ۵۹﴾

۵۹۔ اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنا دیا ۔

59۔ فرعونیوں کو ان کے باغات اور چشموں سے نکالنے کے بعد بنی اسرائیل کو ”ان جیسی“ چیزوں کا وارث بنایا، خود ”انہی“ چیزوں کا نہیں، کیونکہ فرعون کے غرق آب ہونے کے بعد بنی اسرائیل مصر واپس نہیں گئے۔

فَاَتۡبَعُوۡہُمۡ مُّشۡرِقِیۡنَ﴿۶۰﴾

۶۰۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی (فرعون کے) لوگ ان کے تعاقب میں نکل پڑے۔