قَالُوۡا نَعۡبُدُ اَصۡنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عٰکِفِیۡنَ﴿۷۱﴾

۷۱۔ انہوں نے جواب دیا: ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور اس پر ہم قائم رہتے ہیں۔

قَالَ ہَلۡ یَسۡمَعُوۡنَکُمۡ اِذۡ تَدۡعُوۡنَ ﴿ۙ۷۲﴾

۷۲۔ ابراہیم نے کہا: جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری سنتے ہیں؟

72۔ معبود کے پاس کم از کم اتنی قوت سماعت تو ہو جتنی اس پوجنے والے کے پاس ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے مریدوں کے لیے کچھ کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے، وہ دوسری بات ہے۔

اَوۡ یَنۡفَعُوۡنَکُمۡ اَوۡ یَضُرُّوۡنَ﴿۷۳﴾

۷۳۔ یا تمہیں فائدہ یا ضرر دیتے ہیں ؟

قَالُوۡا بَلۡ وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا کَذٰلِکَ یَفۡعَلُوۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ انہوں نے کہا: (نہیں) بلکہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے۔

قَالَ اَفَرَءَیۡتُمۡ مَّا کُنۡتُمۡ تَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۙ۷۵﴾

۷۵۔ ابراہیم نے کہا: مجھے بتلاؤ ان کی حالت جنہیں تم پوجتے ہو؟

اَنۡتُمۡ وَ اٰبَآؤُکُمُ الۡاَقۡدَمُوۡنَ ﴿۫ۖ۷۶﴾

۷۶۔ تم اور تمہارے گزشتہ باپ دادا بھی (پوجتے رہے ہیں) ۔

فَاِنَّہُمۡ عَدُوٌّ لِّیۡۤ اِلَّا رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۷۷﴾

۷۷۔ یقینا یہ سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے،

77۔ یہ بت جن کی تم پوجا کرتے ہو، میرے دشمن ہیں، میری دعوت کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور دشمنوں کی طرح میرے لیے سدراہ ہیں۔ اسی طرح یہ بت ان کی پوجا کرنے والوں کے لیے بھی سد راہ ہیں، اس لیے ان کے بھی دشمن ہیں، ورنہ یہ بت جمادات ہیں۔ یہ نہ دوست بن سکتے ہیں، نہ دشمن۔

الَّذِیۡ خَلَقَنِیۡ فَہُوَ یَہۡدِیۡنِ ﴿ۙ۷۸﴾

۷۸۔ جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی مجھے ہدایت دیتا ہے،

78۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کے ساتھ اپنا رابطہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے ہاتھ میں میری خلقت و ہدایت ہے، میرا رزق و شفا ہے، میری حیات و موت ہے، میری امیدوں کا آخری مرکز وہی ہے کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ معصوم ہونے کے باوجود اپنے رب کی عظمت کے سامنے اپنے آپ کو قصور وار سمجھنا ہی بندگی ہے۔

وَ الَّذِیۡ ہُوَ یُطۡعِمُنِیۡ وَ یَسۡقِیۡنِ ﴿ۙ۷۹﴾

۷۹۔ اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے،

وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ ﴿۪ۙ۸۰﴾

۸۰۔ اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔

80۔ جب میں مریض ہوتا ہوں۔ بیماری کو اپنی طرف نسبت دی اور شفا کو اللہ کی طرف۔ کیونکہ بیماری کے علل و اسباب انسان کے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔