وَ اِنۡ کَذَّبُوۡکَ فَقُلۡ لِّیۡ عَمَلِیۡ وَ لَکُمۡ عَمَلُکُمۡ ۚ اَنۡتُمۡ بَرِیۡٓـــُٔوۡنَ مِمَّاۤ اَعۡمَلُ وَ اَنَا بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو کہدیجئے: میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں۔

40۔41 آج جو لوگ آپ کی تکذیب کر رہے ہیں، ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو آئندہ ایمان لائیں گے۔ انہیں کی وجہ سے ان پر عذاب نازل نہیں ہوتا۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو مرتے دم تک ایمان نہیں لائیں گے۔ ان کے ایمان نہ لانے کا محرک ان کا مفسد ہونا ہے۔ اللہ کو ان مفسدین کا خوب علم ہے، یہ کون لوگ ہیں۔

دوسری آیت میں وہ مؤقف بتایا جو ان مفسدین کے ساتھ اختیار کیا جانا چاہیے کہ پہلے تو ان مفسدین کو حق کی طرف دعوت دی جائے، انکار کی صورت میں ان سے بیزاری اختیار کرنی چاہیے۔ کسی قسم کے جبر و اکراہ سے کام نہیں لینا چاہیے۔

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّسۡتَمِعُوۡنَ اِلَیۡکَ ؕ اَفَاَنۡتَ تُسۡمِعُ الصُّمَّ وَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یَعۡقِلُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں، پھر کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں خواہ وہ عقل نہ رکھتے ہوں؟

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡظُرُ اِلَیۡکَ ؕ اَفَاَنۡتَ تَہۡدِی الۡعُمۡیَ وَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں پھر کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں خواہ وہ کچھ بھی نہ دیکھتے ہوں۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظۡلِمُ النَّاسَ شَیۡئًا وَّ لٰکِنَّ النَّاسَ اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ اللہ یقینا لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ کَاَنۡ لَّمۡ یَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوۡنَ بَیۡنَہُمۡ ؕ قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللّٰہِ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔اور جس (قیامت کے) دن اللہ انہیں جمع کرے گا تو (دنیا کی زندگی یوں لگے گی) گویا وہ دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ یہاں نہیں رہے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان لیں گے، جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا وہ خسارے میں رہے اور وہ ہدایت یافتہ نہ تھے۔

45۔ جب ان منکرین کو اللہ کی بارگاہ میں جمع کیا جائے گا تو یہ لوگ اپنے آگے ایک بے پایاں زندگی کا مشاہدہ کریں گے اور دنیا کی زندگی اس ابدی زندگی کے مقابلے میں نہایت حقیر محسوس ہو گی گویا کہ ایک گھڑی تھی جو غفلت میں گزر گئی، ایک لمحہ تھا جو بیہودگی میں بسر ہوا۔ اس وقت انہیں احساس ہو گا کہ اس حقیر زندگی کی خاطر اپنی ابدی زندگی تباہ کر کے انہوں نے کتنا بڑا خسارہ اٹھایا ہے۔

وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔اور جس (عذاب) کا ہم ان کافروں سے وعدہ کر رہے ہیں اس کا کچھ حصہ ہم آپ کو زندگی میں دکھا دیں یا آپ کو پہلے (ہی دنیا) سے اٹھا لیں انہیں بہرحال پلٹ کر ہماری بارگاہ میں آنا ہے پھر جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اس پر اللہ شاہد ہے۔

46۔ منکرین کو ذلت اور شکست و خواری جیسے عذاب سے دو چار ہونا ہو گا۔ یہ سورہ مکی ہونے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وعدے کا مطلب سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ اللہ کے اس سچے وعدے کے بعد بدر کی نکبت سے لے کر فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ان کو طلقاء (آزاد کردہ) قرار دینے تک، پھر حنین کی شکست کو نظر میں لایا جائے تو اللہ کے اس وعدے کی سچائی ثابت ہو جاتی ہے کہ اس عذاب کا ایک حصہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان منکرین پر نازل ہو گیا۔ چنانچہ سابقہ امتوں کو دفعۃً عذاب دے کر تباہ کر دیا اور رسول آخر الزمان صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے منکرین کو تدریجاً ختم کر دیا، البتہ دفعۃً عذاب نازل نہ کرنا اس امت پر اللہ کی رحمت ہے اور وجود رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی برکت۔

وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ رَسُوۡلُہُمۡ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور ہر امت کے لیے ایک رسول(بھیجا گیا) ہے،پھر جب ان کا رسول آتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم روا نہیں رکھا جاتا۔

وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور وہ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہو گا ؟

قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ؕ اِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ فَلَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ کہدیجئے: میں اللہ کی منشا کے بغیر اپنے نقصان اور نفع کا بھی اختیار نہیں رکھتا، ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے، جب ان کا مقررہ وقت آئے گا تو وہ گھڑی بھر کے لیے نہ تاخیر کر سکیں گے اور نہ تقدیم ۔

49۔ منکرین یہ بات طنز و تکذیب کے طور پر کہتے تھے کہ تمہاری دھمکی کب پوری ہو گی؟ جواب میں فرمایا: اے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم! کہ دیجیے کہ یہ وعدہ میں نے نہیں، اللہ نے کیا ہے اور اسے پورا کرنے کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ سے ہٹ کر تو میں اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ یعنی میں بذات خود کوئی اختیار نہیں رکھتا، جو کچھ رکھتا ہوں وہ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ (مگر جو اللہ چاہے) کے تحت رکھتا ہوں۔ یہ اللہ کے مقابلے میں ذاتی اختیار کی نفی ہے۔ اللہ کی طرف سے اس کی مشیت کے تحت عطا کردہ اختیارات کی نہ صرف نفی نہیں ہے بلکہ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔ لہٰذا سرور کائنات صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان غیر اذن یافتہ مشائخ و اولیاء پر قیاس کرنا بہت بڑی نا انصافی ہے۔ نہ معلوم بعض مفسرین کی نگاہیں صرف لَّاۤ اَمۡلِکُ پر کیوں مرکوز ہوتی ہیں اور اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں؟ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ (یونس: 3) میں جملہ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ کے ساتھ انہیں بڑی دلچسپی ہوتی ہے، لیکن اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ سے نگاہیں چراتے ہیں۔ بالکل اس شخص کی طرح جو کہتا ہے:

{کلوا و اشربوا را فراگوش کن}

{و لا تسرفوا را فراموش کن}

البتہ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ اذن دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کے علاوہ ساری دنیا کے انسان جمع ہو کر بھی ایک فرد کو نہ الٰہی منصب دے سکتے ہیں اور نہ ولی بنا سکتے ہیں۔

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَتٰىکُمۡ عَذَابُہٗ بَیَاتًا اَوۡ نَہَارًا مَّاذَا یَسۡتَعۡجِلُ مِنۡہُ الۡمُجۡرِمُوۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ ان سے کہدیجئے: مجھے بتاؤ کہ اللہ کا عذاب رات کو یا دن کو تم پر آ جائے؟ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے یہ مجرم جلد بازی کرتے ہیں؟