قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ؕ اِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ فَلَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ﴿۴۹﴾
۴۹۔ کہدیجئے: میں اللہ کی منشا کے بغیر اپنے نقصان اور نفع کا بھی اختیار نہیں رکھتا، ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے، جب ان کا مقررہ وقت آئے گا تو وہ گھڑی بھر کے لیے نہ تاخیر کر سکیں گے اور نہ تقدیم ۔
49۔ منکرین یہ بات طنز و تکذیب کے طور پر کہتے تھے کہ تمہاری دھمکی کب پوری ہو گی؟ جواب میں فرمایا: اے رسول ﷺ! کہ دیجیے کہ یہ وعدہ میں نے نہیں، اللہ نے کیا ہے اور اسے پورا کرنے کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ سے ہٹ کر تو میں اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ یعنی میں بذات خود کوئی اختیار نہیں رکھتا، جو کچھ رکھتا ہوں وہ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ (مگر جو اللہ چاہے) کے تحت رکھتا ہوں۔ یہ اللہ کے مقابلے میں ذاتی اختیار کی نفی ہے۔ اللہ کی طرف سے اس کی مشیت کے تحت عطا کردہ اختیارات کی نہ صرف نفی نہیں ہے بلکہ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔ لہٰذا سرور کائنات ﷺ کو ان غیر اذن یافتہ مشائخ و اولیاء پر قیاس کرنا بہت بڑی نا انصافی ہے۔ نہ معلوم بعض مفسرین کی نگاہیں صرف لَّاۤ اَمۡلِکُ پر کیوں مرکوز ہوتی ہیں اور اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں؟ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ (یونس: 3) میں جملہ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ کے ساتھ انہیں بڑی دلچسپی ہوتی ہے، لیکن اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ سے نگاہیں چراتے ہیں۔ بالکل اس شخص کی طرح جو کہتا ہے:
{کلوا و اشربوا را فراگوش کن}
{و لا تسرفوا را فراموش کن}
البتہ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ اذن دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کے علاوہ ساری دنیا کے انسان جمع ہو کر بھی ایک فرد کو نہ الٰہی منصب دے سکتے ہیں اور نہ ولی بنا سکتے ہیں۔