وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔اور جس (عذاب) کا ہم ان کافروں سے وعدہ کر رہے ہیں اس کا کچھ حصہ ہم آپ کو زندگی میں دکھا دیں یا آپ کو پہلے (ہی دنیا) سے اٹھا لیں انہیں بہرحال پلٹ کر ہماری بارگاہ میں آنا ہے پھر جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اس پر اللہ شاہد ہے۔

46۔ منکرین کو ذلت اور شکست و خواری جیسے عذاب سے دو چار ہونا ہو گا۔ یہ سورہ مکی ہونے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وعدے کا مطلب سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ اللہ کے اس سچے وعدے کے بعد بدر کی نکبت سے لے کر فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان کو طلقاء (آزاد کردہ) قرار دینے تک، پھر حنین کی شکست کو نظر میں لایا جائے تو اللہ کے اس وعدے کی سچائی ثابت ہو جاتی ہے کہ اس عذاب کا ایک حصہ رسول ﷺ کی زندگی میں ان منکرین پر نازل ہو گیا۔ چنانچہ سابقہ امتوں کو دفعۃً عذاب دے کر تباہ کر دیا اور رسول آخر الزمان ﷺ کی رسالت کے منکرین کو تدریجاً ختم کر دیا، البتہ دفعۃً عذاب نازل نہ کرنا اس امت پر اللہ کی رحمت ہے اور وجود رسول ﷺ کی برکت۔