وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّدۡعُوۡنَ اِلَی النَّارِ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ لَا یُنۡصَرُوۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ اور ہم نے انہیں ایسے رہنما بنایا جو آتش کی طرف بلاتے ہیں اور قیامت کے دن ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔

41۔ وَ جَعَلۡنٰہُمۡ : جب کسی ناقابل ہدایت انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو قرآن اس کے لیے یہ تعبیر اختیار فرماتا ہے: ” ہم نے اس کو گمراہ کیا۔ “ یہاں بھی یہی صورت ہے کہ فرعون لوگوں کو گمراہ کر کے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے رہنما بنا ہوا ہے۔ اللہ نے رسولوں اور معجزوں کے ذریعے اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ جب وہ نہیں مانا تو اللہ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور اس کا حال یہ تھا کہ وہ لوگوں کو جہنم کی طرف لے جا رہا تھا۔ چونکہ فرعون کفر و سرکشی کی ایک روایت قائم کر گیا اس لیے جب تک اس روایت کا سلسلہ جاری رہے گا، اس پر لعنت کا تسلسل بھی قائم رہے گا۔

وَ اَتۡبَعۡنٰہُمۡ فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا لَعۡنَۃً ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ہُمۡ مِّنَ الۡمَقۡبُوۡحِیۡنَ﴿٪۴۲﴾

۴۲۔ اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی ہے اور قیامت کے دن یہ قبیح (چہرہ والے) ہوں گے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَہۡلَکۡنَا الۡقُرُوۡنَ الۡاُوۡلٰی بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور بتحقیق ہم نے پہلی امتوں کو ہلاک کرنے کے بعد لوگوں کے لیے بصیرتوں اور ہدایت و رحمت (کا سرچشمہ) بنا کر موسیٰ کو کتاب دی، شاید لوگ نصیحت حاصل کریں۔

43۔ سابق انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے سرکشی کے نتیجے میں پچھلی نسلیں جب تباہ ہو گئیں تو ہم نے موسیٰ کو کتاب دے کر آنے والی نسلوں کے لیے ہدایت کا ایک جدید سلسلہ شروع کیا ہے۔

وَ مَا کُنۡتَ بِجَانِبِ الۡغَرۡبِیِّ اِذۡ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسَی الۡاَمۡرَ وَ مَا کُنۡتَ مِنَ الشّٰہِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ اور آپ اس وقت (طور کے) مغربی جانب موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کی طرف حکم بھیجا اور آپ مشاہدہ کرنے والوں میں سے نہ تھے۔

44۔ مکہ والوں کے حسی مشاہدے کے مطابق آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت موجود نہ تھے جب اللہ طور کی مغربی جانب موسیٰ علیہ السلام کو شریعت دے رہا تھا۔ اس کے باوجود آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کے حالات اس طرح بیان کر رہے ہیں جیسا کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں موجود تھے۔ واضح رہے یہ جگہ حجاز کی مغربی جانب واقع ہے۔

وَ لٰکِنَّاۤ اَنۡشَاۡنَا قُرُوۡنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیۡہِمُ الۡعُمُرُ ۚ وَ مَا کُنۡتَ ثَاوِیًا فِیۡۤ اَہۡلِ مَدۡیَنَ تَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا ۙ وَ لٰکِنَّا کُنَّا مُرۡسِلِیۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ لیکن ہم نے کئی امتوں کو پیدا کیا پھر ان پر طویل مدت گزر گئی اور نہ آپ اہل مدین میں سے تھے کہ انہیں ہماری آیات سنا رہے ہوتے لیکن ہم ہی (ان تمام خبروں کے) بھیجنے والے ہیں۔

45۔ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حسی طور پر مَدۡیَنَ میں مقیم نہ تھے، قرآن کے ذریعے وہاں کی خبریں ہم آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بھیج رہے ہیں جو آپ کی نبوت کی ایک دلیل ہے۔

وَ مَا کُنۡتَ بِجَانِبِ الطُّوۡرِ اِذۡ نَادَیۡنَا وَ لٰکِنۡ رَّحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰىہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور آپ طور کے کنارے پر موجود نہ تھے جب ہم نے ندا دی تھی بلکہ (آپ کا رسول بنانا) آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو تنبیہ کریں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

46۔ مشرکین مکہ کی معلومات کے مطابق آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان تمام مقامات پر موجود نہ تھے اور ان پر طویل مدت بھی گزر گئی تھی اور مکہ کی ان پڑھ قوم میں ان واقعات کا علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا، پس اگر یہ قرآن وحی الہٰی نہیں ہے تو کون سا ذریعہ ممکن ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی ذریعہ موجود ہوتا تو آج کے مستشرقین سے کہیں زیادہ مکہ کے مشرکین کو اس کی ضرورت تھی۔ وہ اسے برملا کر دیتے اور جنگ کرنے کی نوبت نہ آتی۔

عربوں میں حضرت ہود، صالح، شعیب اور اسماعیل علیہم السلام کے بعد سینکڑوں سالوں سے کوئی نبی نہیں آیا۔ البتہ باہر کے انبیاء کی دعوتیں پہنچتی رہیں اور حجت تمام ہوتی رہی۔

وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَیَقُوۡلُوۡا رَبَّنَا لَوۡ لَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَ نَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔اور ایسا نہ ہو کہ اپنے ہاتھوں آگے بھیجی ہوئی حرکتوں کی وجہ سے اگر ان پر کوئی مصیبت نازل ہو جائے تو وہ یہ کہنے لگیں: ہمارے رب! تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی اتباع کرتے اور ایمان لانے والوں میں شامل ہو جاتے ۔

47۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کے ذریعے پیغام حق لوگوں تک پہنچتا رہا۔ اگر کسی رسول کا پیغام لوگوں تک پہنچ سکتا ہے اور تعلیمات کو محو نہ کیا گیا ہو اور شریعت میں کسی قسم کی تبدیلی کی بھی ضرورت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نیا نبی مبعوث نہیں فرماتا۔

فَلَمَّا جَآءَہُمُ الۡحَقُّ مِنۡ عِنۡدِنَا قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُوۡتِیَ مِثۡلَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی مِنۡ قَبۡلُ ۚ قَالُوۡا سِحۡرٰنِ تَظٰہَرَا ۟ٝ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا بِکُلٍّ کٰفِرُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ پھر جب ہماری طرف سے حق ان کے پاس آگیا تو وہ کہنے لگے: جیسی (نشانی) موسیٰ کو دی گئی تھی ایسی (نشانی) انہیں کیوں نہیں دی گئی؟ کیا انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا جو قبل ازیں موسیٰ کو دیا گیا تھا؟ انہوں نے کہا: یہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے والے جادو ہیں اور کہا: ہم ان سب کے منکر ہیں۔

48۔ اسی لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تاریخ کو اللہ بڑے اہتمام کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ ان کی طرف سے عظیم معجزوں کے باوجود قوم فرعون ایمان نہ لائی۔ تاریخ انبیاء شاہد ہے کہ معاندین کبھی بھی معجزوں کو دیکھ کر ایمان نہیں لائے۔

قُلۡ فَاۡتُوۡا بِکِتٰبٍ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ہُوَ اَہۡدٰی مِنۡہُمَاۤ اَتَّبِعۡہُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ کہدیجئے: پس اگر تم سچے ہو تو تم بھی اللہ کی طرف سے کوئی ایسی کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخش ہو، میں اس کی اتباع کروں گا۔

49۔ مشرکین اللہ کے وجود کو تو مانتے تھے مگر توریت و قرآن کو نہیں مانتے تھے۔ اس بنیاد پر فرمایا کہ اگر توریت و قرآن کو نہیں مانتے تو کوئی ایسی کتاب پیش کرو جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو۔

فَاِنۡ لَّمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَکَ فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا یَتَّبِعُوۡنَ اَہۡوَآءَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَیۡرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿٪۵۰﴾

۵۰۔ پس اگر وہ آپ کی یہ بات نہیں مانتے تو آپ سمجھ لیں کہ یہ لوگ بس اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا؟ اللہ ظالموں کو یقینا ہدایت نہیں کرتا۔

50۔ اگر وہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات نہیں مانتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت میں یا آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے دلیل میں کوئی کمزوری ہے۔ ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ تلاش حق میں نہیں ہیں۔ اس میں ان کی خواہش پرستی رکاوٹ ہے۔ یہ خواہش پرستی ہے جس کی وجہ سے نہ کوئی دلیل مؤثر ہوتی ہے، نہ معجزہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔