وَ مَا کُنۡتَ بِجَانِبِ الطُّوۡرِ اِذۡ نَادَیۡنَا وَ لٰکِنۡ رَّحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰىہُمۡ مِّنۡ نَّذِیۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ اور آپ طور کے کنارے پر موجود نہ تھے جب ہم نے ندا دی تھی بلکہ (آپ کا رسول بنانا) آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو تنبیہ کریں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

46۔ مشرکین مکہ کی معلومات کے مطابق آپ ﷺ ان تمام مقامات پر موجود نہ تھے اور ان پر طویل مدت بھی گزر گئی تھی اور مکہ کی ان پڑھ قوم میں ان واقعات کا علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا، پس اگر یہ قرآن وحی الہٰی نہیں ہے تو کون سا ذریعہ ممکن ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی ذریعہ موجود ہوتا تو آج کے مستشرقین سے کہیں زیادہ مکہ کے مشرکین کو اس کی ضرورت تھی۔ وہ اسے برملا کر دیتے اور جنگ کرنے کی نوبت نہ آتی۔

عربوں میں حضرت ہود، صالح، شعیب اور اسماعیل علیہم السلام کے بعد سینکڑوں سالوں سے کوئی نبی نہیں آیا۔ البتہ باہر کے انبیاء کی دعوتیں پہنچتی رہیں اور حجت تمام ہوتی رہی۔