وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ ثَقِفۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ اَخۡرَجُوۡکُمۡ وَ الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ ۚ وَ لَا تُقٰتِلُوۡہُمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوۡکُمۡ فِیۡہِ ۚ فَاِنۡ قٰتَلُوۡکُمۡ فَاقۡتُلُوۡہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۹۱﴾

۱۹۱۔ اور انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرو اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ برا ہے، ہاں مسجد الحرام کے پاس ان سے اس وقت تک نہ لڑو جب تک وہ وہاں تم سے نہ لڑیں، لیکن اگر وہ تم سے لڑیں تو تم انہیں مار ڈالو، کافروں کی ایسی ہی سزا ہے۔

191۔ فتنے میں قتل بھی کثرت سے ہوتا ہے اور لوگوں سے امن و سکون بھی سلب ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فتنہ پرور لوگ حق کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۹۲﴾

۱۹۲۔ البتہ اگر وہ باز آجائیں تو یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ فَاِنِ انۡتَہَوۡا فَلَا عُدۡوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۹۳﴾

۱۹۳۔ اور تم ان سے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے، ہاں اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو گی۔

192۔ 193۔ غیر مسلم اگر فتنہ پرور نہ ہو اور اپنے باطل نظریات کو لوگوں میں رائج کرنے اور حق کا راستہ روکنے میں کوئی کردار ادا نہ کرے تو اس آیت میں اس کے لیے پیغام امن ہے کہ اگر وہ فتنے سے باز آجائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی۔

اَلشَّہۡرُ الۡحَرَامُ بِالشَّہۡرِ الۡحَرَامِ وَ الۡحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ فَاعۡتَدُوۡا عَلَیۡہِ بِمِثۡلِ مَا اعۡتَدٰی عَلَیۡکُمۡ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۹۴﴾

۱۹۴۔ حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت کا مہینہ ہی ہے اور حرمتوں کا بھی قصاص ہے، لہٰذا جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو جس طرح اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔

194۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب، حج اور عمرے کے لیے مختص تھے۔ ان مہینوں کو حرمت (تقدس) کے مہینے کہتے ہیں۔ ان چار مہینوں میں جاہلیت کے دور میں بھی لوگ جنگ نہیں کرتے تھے۔ اس آیت میں یہ آیا ہے کہ اگر کفار ان مہینوں کی حرمت کو توڑ دیں اور اس کا تقدس پامال کریں تو مسلمان بھی ان حرمت والے مہینوں میں ان کا مقابلہ کریں کیونکہ حرمتوں کا بھی قصاص ہے۔

وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۹۵﴾

۱۹۵۔ اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور احسان کیا کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو یقینا پسند کرتا ہے۔

195۔ مشرکین کے ساتھ جنگ اور راہ خدا میں جہاد کا ایک حصہ مالی جہاد ہے۔ آیہ شریفہ میں اس بات کا حکم دیا جا رہا ہے کہ اگر چہ مسلمان حق پر ہیں اور رب کی نصرت ان کے ساتھ ہے، لیکن پھر بھی چونکہ اس عالم میں علل و اسباب کا نظام کارفرما ہے، اس لیے جنگ میں کامیابی کے لیے عام علل و اسباب پر بھی تکیہ کرنا ہو گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اپنے ہاتھوں ہلاکت میں پڑنے کے مترادف ہو گا۔ اللہ کے وضع کردہ نظام کے مطابق عمل کرنا ہی احسان ہے۔ جنگ کے موقع پر جنگ کرنا، خرچ کی جگہ مال و دولت کو خرچ کرنا اور اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانا احسان کے مواقع ہیں۔ انفاق اور ہلاکت کے باہمی ربط کا ذکر نہایت قابل توجہ ہے کہ انفاق کو وہی اہمیت حاصل ہے جو زندگی کو ہے اور انفاق سے قومیں زندہ رہتی ہیں۔ انفاق ہی کے ذریعے قوم کی رگوں میں زندگی کی رمق باقی رہتی ہے۔

اس آیت سے خود کشی کی حرمت پر بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا حرام ہے۔

وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ ؕ فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوۡ بِہٖۤ اَذًی مِّنۡ رَّاۡسِہٖ فَفِدۡیَۃٌ مِّنۡ صِیَامٍ اَوۡ صَدَقَۃٍ اَوۡ نُسُکٍ ۚ فَاِذَاۤ اَمِنۡتُمۡ ٝ فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَۃِ اِلَی الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ فَمَنۡ لَّمۡ یَجِدۡ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الۡحَجِّ وَ سَبۡعَۃٍ اِذَا رَجَعۡتُمۡ ؕ تِلۡکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ لَّمۡ یَکُنۡ اَہۡلُہٗ حَاضِرِی الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ﴿۱۹۶﴾٪

۱۹۶۔ اور تم لوگ اللہ کے لیے حج اور عمرہ مکمل کرو، پھر اگر تم لوگ (راستے میں) گھر جاؤ تو جیسی قربانی میسر آئے کر دو اور جب تک قربانی اپنے مقام پر پہنچ نہ جائے اپنا سر نہ مونڈھو، لیکن اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو تو وہ روزوں سے یا صدقے سے یا قربانی سے فدیہ دے دے، پھر جب تمہیں امن مل جائے تو جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرے سے بہرہ مند رہا ہو وہ حسب مقدور قربانی دے اور جسے قربانی میسر نہ آئے وہ تین روزے ایام حج میں رکھے اور سات واپسی پر، اس طرح یہ پورے دس (روزے) ہوئے، یہ(حکم) ان لوگوں کے لیے ہے جن کے اہل و عیال مسجد الحرام کے نزدیک نہ رہتے ہوں اور اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔

196۔ یعنی اگر حج کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش آئے جس کی وجہ سے آگے جانا ممکن نہ ہو تو جو قربانی میسر آئے اسے ذبح کرو۔ قربانی کا مقام حج کے لیے منیٰ اور عمرہ کے لیے مکہ ہے۔

حج ان مناسک سے عبارت ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے مکہ میں ادا کیے جاتے ہیں۔ اہل عرب بھی یہی عمل یعنی حج بجا لاتے تھے۔ اسلام نے اہل عرب کی بعض خرافات کی تطہیر کے بعد حقیقی حج کو برقرار رکھا۔ حج اسلامی شعائر میں سے ہے بلکہ اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔

جو لوگ دور سے حج کے لیے آتے ہیں وہ ایک ہی سفر میں پہلے عمرہ کے لیے احرام باندھتے ہیں اور اعمال عمرہ بجا لانے کے بعد احرام کھولتے ہیں اور احرام سے نکل آتے ہیں، پھر جب حج کے دن آئیں تو دوبارہ احرام باندھتے ہیں اور اعمال حج بجا لاتے ہیں۔ اسے حج تمتع کہتے ہیں۔ جبکہ مکہ کے باشندے حج افراد یا حج قران بجا لاتے ہیں انہیں عمرہ کے لیے الگ سفر نہیں کرنا پڑتا۔

اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ ؕؔ وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ﴿۱۹۷﴾

۱۹۷۔حج کے مقررہ مہینے ہیں، پس جو ان میں حج بجا لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر حج کے دوران ہم بستری نہ ہو اور نہ فسق و فجور اور نہ لڑائی جھگڑا ہو اور جو کار خیر تم کرو گے اللہ اسے خوب جان لے گا اور زادراہ لے لیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! (میری نافرمانی سے) پرہیز کرو۔

197۔ زمان جاہلیت میں حج کے موقع پر بازار لگاتے، ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے اور ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرتے تھے۔ اس طرح حج کی عبادت لڑائی میں بدل جاتی تھی۔

وَ تَزَوَّدُوۡا : زاد راہ مہیا کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ یعنی اگر حج کے مختصر سفر کے لیے زاد راہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو آخرت کے طویل اور لامحدود سفر کے لیے زاد راہ کتنا ضروری ہو گا اور اس کے لیے بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔

لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ فَاِذَاۤ اَفَضۡتُمۡ مِّنۡ عَرَفٰتٍ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ عِنۡدَ الۡمَشۡعَرِ الۡحَرَامِ ۪ وَ اذۡکُرُوۡہُ کَمَا ہَدٰىکُمۡ ۚ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیۡنَ﴿۱۹۸﴾

۱۹۸۔ تم پر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو، پھر جب تم عرفات سے چلو تو مشعر الحرام (مزدلفہ) کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے، حالانکہ اس سے پہلے تم راہ گم کیے ہوئے تھے۔

198۔ ایام جاہلیت میں عربوں نے حج کو ایک تاجرانہ عمل بنا رکھا تھا۔ وہ ان دنوں بڑے بڑے بازار لگاتے تھے۔ چنانچہ جب اللہ کا یہ فرمان نازل ہوا: فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی تو مسلمانوں کے ذہن میں اس خیال کا آنا قرین قیاس تھا کہ دنیاوی و مادی امور کے لیے جد و جہد کرنا اعمال حج کے منافی ہے۔ یہ خیال دور کرنے کے لیے ارشاد ہوا کہ اللہ کا فضل تلاش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور یہ حج کے منافی بھی نہیں ہے۔ اس اعتبار سے ایام حج میں کسب حلال کا عمل حج کے منافی نہیں بلکہ حج کی طرح روزی کمانا بھی عبادت ہے۔ واضح رہے کہ احادیث کے مطابق فضل سے مراد کسب حلال ہے۔

روانہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں حاجی ٹھہرا ہوا ہے وہاں سے روانہ ہو۔ چنانچہ عرفات میں وقوف کرنا حج کے ارکان میں سے ہے۔ ”مشعر الحرام میں اللہ کو یاد کرو“ سے مزدلفہ میں وقوف کرنے کا حکم واضح ہو جاتا ہے۔

ثُمَّ اَفِیۡضُوۡا مِنۡ حَیۡثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۹۹﴾

۱۹۹۔پھر جہاں سے لوگ روانہ ہوتے ہیں تم بھی روانہ ہو جاؤ اور اللہ سے معافی مانگو، یقینا اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

199۔ قریش عرفات تک جانے کو اپنی شان کے منافی سمجھتے تھے۔اس آیت میں اس امتیازی تصور کو مٹانے کیلیے حکم ہوا کہ سب ایک صف میں حج کرو۔

فَاِذَا قَضَیۡتُمۡ مَّنَاسِکَکُمۡ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا ؕ فَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ خَلَاقٍ﴿۲۰۰﴾

۲۰۰۔پھر جب تم حج کے اعمال بجا لا چکو تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آبا و اجداد کو یاد کیا کرتے ہو یا اس سے بھی زیادہ، پس لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے: ہمارے رب! ہمیں دنیا ہی میں (سب کچھ) دے دے اور ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔

200۔ دور جاہلیت میں اعمال حج سے فراغت کے بعد عرب جلسے منعقد کرتے اور اپنے آبا و اجداد کے کارنامے بیان کرتے تھے۔ اس آیت میں حکم ہوا آبا و اجداد پر فخر و مباہات کی جگہ اللہ کو یاد کرو۔ یاد خدا کے سلسلے میں اگر تم اللہ سے کچھ مانگتے ہو، صرف دنیا نہ مانگو، شاید تمہیں دنیا مل جائے مگر آخرت میں تمہارا کوئی حصہ نہ ہو گا۔ جبکہ اگر تم نے آخرت مانگی تو آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی تمہیں اپنا حصہ مل جائے گا۔ لہٰذا بندے کو مانگنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔