وَ کَیۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَکۡتُمۡ وَ لَا تَخَافُوۡنَ اَنَّکُمۡ اَشۡرَکۡتُمۡ بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا ؕ فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾

۸۱۔اور میں تمہارے بنائے ہوئے شریکوں سے کیونکر ڈروں جب کہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کی کوئی دلیل اس نے تم پر نازل نہیں کی؟ اگر تم کچھ علم رکھتے ہو تو بتاؤ کہ کون سا فریق امن و اطمینان کا زیادہ مستحق ہے ۔

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ﴿٪۸۲﴾

۸۲۔جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے ملوث نہیں کیا یہی لوگ امن میں ہیں اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔

وَ تِلۡکَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیۡنٰہَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ عَلٰی قَوۡمِہٖ ؕ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیۡمٌ عَلِیۡمٌ﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور یہ ہماری وہ دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں عنایت فرمائی، جس کے ہم چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں، بے شک آپ کا رب بڑا حکمت والا، خوب علم والا ہے۔

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ ؕ کُلًّا ہَدَیۡنَا ۚ وَ نُوۡحًا ہَدَیۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیۡمٰنَ وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡسُفَ وَ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿ۙ۸۴﴾

۸۴۔اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کی بھی اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں،

وَ زَکَرِیَّا وَ یَحۡیٰی وَ عِیۡسٰی وَ اِلۡیَاسَ ؕ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿ۙ۸۵﴾

۸۵۔اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کی بھی، (یہ) سب صالحین میں سے تھے۔

85۔ان ذریتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے، یہ اس بات پر دلیل ہے کہ دختر کی اولاد بھی ذریت شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے حجاج بن یوسف کے سامنے اس آیت اور آیۂ مباہلہ سے حسنین علیہما السلام کے ذریت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہونے پر استدلال فرمایا اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ہارون رشید کے سامنے اس آیت سے استدلال کیا کہ ہم ذریت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں۔

وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ الۡیَسَعَ وَ یُوۡنُسَ وَ لُوۡطًا ؕ وَ کُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۸۶﴾

۸۶۔ اور اسماعیل، یسع، یونس اور لوط (کی رہنمائی کی) اور سب کو عالمین پر فضیلت ہم نے عطا کی ۔

86۔ اس آیت میں مذکور اسماعیل فرزند ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ ہیں۔ ملاحظہ ہو سورہ مریم آیت 54۔

وَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ وَ اِخۡوَانِہِمۡ ۚ وَ اجۡتَبَیۡنٰہُمۡ وَ ہَدَیۡنٰہُمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اور اسی طرح ان کے آبا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں کو بھی (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں منتخب کر لیا اور ہم نے راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کی۔

ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَ لَوۡ اَشۡرَکُوۡا لَحَبِطَ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔یہ ہے اللہ کی ہدایت جس سے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نوازے اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو ان کے کیے ہوئے تمام اعمال برباد ہو جاتے ۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحُکۡمَ وَ النُّبُوَّۃَ ۚ فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ہٰۤؤُلَآءِ فَقَدۡ وَکَّلۡنَا بِہَا قَوۡمًا لَّیۡسُوۡا بِہَا بِکٰفِرِیۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی، اب اگر یہ لوگ ان کا انکار کریں تو ہم نے ان پر ایسے لوگ مقرر کر رکھے ہیں جو ان کے منکر نہیں ہیں۔

9۔ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے حکم ہوتا ہے کہ وہ ان انبیاء کی راہ پر چلیں ان کی اقتدا کریں یعنی تبلیغ رسالت، منکرین سے جہاد، مصائب و آلام میں صبر وغیرہ میں اقتدا کریں، نہ کہ ان انبیاء پر نازل ہونے والے ہر حکم کی اقتدا، جیسا کہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ آخر میں اپنی بے غرضی کے اعلان کا حکم ہوا کہ کہ دیجیے میں اس تبلیغ و ہدایت پر کوئی اجر نہیں مانگتا یہ تو ایک الٰہی نعمت اور انسانی نصیحت ہے، جو خود تمہاری اور اہل عالم کی نجات کے لیے ہے۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقۡتَدِہۡ ؕ قُلۡ لَّاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا ذِکۡرٰی لِلۡعٰلَمِیۡنَ﴿٪۹۰﴾

۹۰۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے تو آپ بھی انہی کی ہدایت کی اقتدا کریں،کہدیجئے: میں اس (تبلیغ قرآن) پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ تو عالمین کے لیے فقط ایک نصیحت ہے۔