قَالُوۡا فَاۡتُوۡا بِہٖ عَلٰۤی اَعۡیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡہَدُوۡنَ﴿۶۱﴾

۶۱۔ کہنے لگے: اسے سب کے سامنے پیش کرو تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں۔

61۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصد یہی تھا کہ سب لوگوں کے سامنے یہ مسئلہ چھڑ جائے تاکہ ان بتوں کی بے بسی سب کے سامنے عیاں ہو جائے۔

قَالُوۡۤا ءَاَنۡتَ فَعَلۡتَ ہٰذَا بِاٰلِہَتِنَا یٰۤـاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿ؕ۶۲﴾

۶۲۔ کہا :اے ابراہیم! کیا ہمارے معبودوں کا یہ حال تم نے کیا ہے ؟

قَالَ بَلۡ فَعَلَہٗ ٭ۖ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا فَسۡـَٔلُوۡہُمۡ اِنۡ کَانُوۡا یَنۡطِقُوۡنَ﴿۶۳﴾

۶۳۔ ابراہیم نے کہا: بلکہ ان کے اس بڑے (بت )نے ایسا کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں۔

63۔ ان بتوں کی بے بسی کو ظاہر کرنے اور بت پرستی کو باطل ثابت کرنے کے لیے دلیل کے طور پر ایک مفروضہ سامنے رکھا کہ ان چھوٹے بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جھوٹ نہیں بول رہے تھے بلکہ ایک مفروضہ قائم کر رہے ہیں کہ تمہارے معبود سے اگر کوئی کام بن سکتا ہے تو دوسرے بتوں کو اسی نے توڑا ہے۔ خود ان سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہیں۔ بت پرستوں کو علم تھا کہ نہ یہ بول سکتے ہیں، نہ توڑ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ یہ بے بس معبود نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ کچھ فائدہ دے سکتے ہیں۔

فَرَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ فَقَالُوۡۤا اِنَّکُمۡ اَنۡتُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿ۙ۶۴﴾

۶۴۔ (یہ سن کر) وہ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور کہنے لگے : حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو۔

ثُمَّ نُکِسُوۡا عَلٰی رُءُوۡسِہِمۡ ۚ لَقَدۡ عَلِمۡتَ مَا ہٰۤؤُلَآءِ یَنۡطِقُوۡنَ﴿۶۵﴾

۶۵۔ پھر وہ اپنے سروں کے بل اوندھے ہو گئے اور (ابراہیم سے کہا) : تم جانتے ہو یہ نہیں بولتے ۔

65۔ ضمیر کی اس آواز کے برعکس ان لوگوں نے الٹا سوچنا شروع کیا اور ابراہیم علیہ السلام کو ملزم قرار دیتے ہوئے کہنے لگے: ابراہیم تجھے خود علم ہے یہ نہیں بول سکتے، لہذا تم نے ہی توڑا ہے۔

قَالَ اَفَتَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَا یَضُرُّکُمۡ ﴿ؕ۶۶﴾

۶۶۔ ابراہیم نے کہا: تو پھر تم اللہ کو چھوڑ کر انہیں کیوں پوجتے ہو جو تمہیں نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان؟

66۔ اگر یہ بول بھی نہیں سکتے اور دیگر بتوں کے ریزہ ریزہ کرنے والے کا بھی نہیں بتا سکتے تو تم ایسی بے بس چیز کی پوجا کیوں کرتے ہو۔

اُفٍّ لَّکُمۡ وَ لِمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۶۷﴾

۶۷۔ تف ہو تم پر اور ان (معبودوں) پر جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟

قَالُوۡا حَرِّقُوۡہُ وَ انۡصُرُوۡۤا اٰلِہَتَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ فٰعِلِیۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ وہ کہنے لگے: اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو۔

قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾

۶۹۔ ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔

69۔ جس ذات نے ان تمام اشیاء کو وجود دیا اور ان کو مختلف خاصیتیں عنایت فرمائیں، اس کی قدرت میں ہے کہ ان اشیاء سے ان کی خاصیتیں سلب کر لے۔ ہم نے اس سے پہلے بھی معجزوں کے بارے میں کہا ہے کہ معجزے بلا علت و اسباب رونما نہیں ہوتے۔ البتہ ان کے پیچھے جو علت و سبب ہے وہ ہمارے لیے ناقابل تسخیر ہے۔ آتش کو سوزش دینا اور اس سے اس سوزش کو سلب کرنا خالق آتش کے ہاتھ میں ہے۔ جس ذات کے حکم کُنۡ سے لا محدود کائنات وجود میں آئی ہے، یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا سے ایک آتش پر کُنۡ کے اثر کے بارے میں سوال نامعقول بات ہے۔

روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود میں جاتے ہوئے یہ دعا پڑھی تھی: یا احد یا احد یا صمد یا صمد یا من لم یلد و لم یولد و لم یکن لہ کفو احد ۔ (الکافی 8: 368)

روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جبرئیل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اس وقت پوچھا کوئی حاجت ہے؟ تو فرمایا: اما الیک فلا مگر آپ سے کوئی حاجت نہیں (مستدرک الوسائل 3: 303) اللہ پر کامل ایمان و بھروسا رکھنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جبرئیل جیسے مقتدر فرشتے کو بھی اعتنا میں نہیں لاتے۔

وَ اَرَادُوۡا بِہٖ کَیۡدًا فَجَعَلۡنٰہُمُ الۡاَخۡسَرِیۡنَ ﴿ۚ۷۰﴾

۷۰۔ اور انہوں نے ابراہیم کے ساتھ اپنا حربہ استعمال کیا اور ہم نے خود انہیں ناکام بنا دیا۔