کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ وَ لَا تَطۡغَوۡا فِیۡہِ فَیَحِلَّ عَلَیۡکُمۡ غَضَبِیۡ ۚ وَ مَنۡ یَّحۡلِلۡ عَلَیۡہِ غَضَبِیۡ فَقَدۡ ہَوٰی﴿۸۱﴾

۸۱۔ جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اس میں سرکشی نہ کرو ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب نازل ہوا بتحقیق وہ ہلاک ہو گیا۔

81۔ ہَوٰی : اوپر سے نیچے گرنا۔ خواہشات کو بھی ہَوٰی کہتے ہیں، چونکہ یہ بھی انسان کو اپنی منزلت سے گرا دیتی ہیں۔ رزق حلال ہی طیب و پاکیزہ ہے، اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ حکم ہے۔ وَ لَا تَطۡغَوۡا فِیۡہِ : البتہ حد سے تجاوز کرنے کی صورت میں یہ غضب الٰہی کا باعث بن جاتا ہے۔ حد سے تجاوز کے ضمن میں ان نعمتوں کو گناہ کے ارتکاب کا ذریعہ بنانا ہے اور کم سے کم تجاوز پرخوری اور اسراف ہے اور کم سے کم غضب الٰہی پرخور کی صحت پر پڑنے والے اثرات ہو سکتے ہیں۔

وَ اِنِّیۡ لَغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہۡتَدٰی﴿۸۲﴾

۸۲۔ البتہ جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے پھر راہ راست پر چلے تو میں اسے خوب بخشنے والا ہوں۔

82۔ مغفرت کے لیے چار مراحل طے کرنا پڑتے ہیں: اول گناہوں سے توبہ، دوم اللہ اور آخرت کے ثواب پر ایمان لانا، سوم عمل صالح بجا لانا اور چہارم راہ راست پر قائم رہنا۔ توبہ کے بعد ضروری ہے کہ پھر انحراف کا شکار نہ ہو۔

وَ مَاۤ اَعۡجَلَکَ عَنۡ قَوۡمِکَ یٰمُوۡسٰی﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور (فرمایا) اے موسیٰ! آپ نے اپنی قوم سے پہلے (آنے میں)جلدی کیوں کی؟

قَالَ ہُمۡ اُولَآءِ عَلٰۤی اَثَرِیۡ وَ عَجِلۡتُ اِلَیۡکَ رَبِّ لِتَرۡضٰی﴿۸۴﴾

۸۴۔ موسیٰ نے عرض کیا: وہ میرے پیچھے آ رہے ہیں اور میرے رب ! میں نے تیری طرف (آنے میں) جلدی اس لیے کی کہ تو خوش ہو جائے ۔

83۔ 84 جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم سے ستر (70) سرداروں کو منتخب کر کے کوہ طور پر حاضر ہونے کا حکم ملا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام دوسرے نقبائے قوم سے پہلے کوہ طور پر پہنچ گئے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا: یہ عجلت تیری رضا جوئی کے لیے تھی۔ تجھ سے مناجات کی حلاوت، تجھ سے راز و نیاز کے کیف و سرور اور تیری قربت کی چاشنی نے مجھے عجلت پر مجبور کر دیا۔

قَالَ فَاِنَّا قَدۡ فَتَنَّا قَوۡمَکَ مِنۡۢ بَعۡدِکَ وَ اَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ﴿۸۵﴾

۸۵۔ فرمایا: پس آپ کے بعد آپ کی قوم کو ہم نے آزمائش میں ڈالا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔

85۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس دن گزارنے کے بعد خبر دی کہ ان کی قوم آزمائش میں گمراہ ہو گئی ہے۔ فَتَنَّا قَوۡمَکَ : اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگوں کے ایمان کا امتحان کیا جائے تاکہ لوگوں کے ایمان کی حقیقت عملاً ظاہر ہو جائے۔

فَرَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۬ۚ قَالَ یٰقَوۡمِ اَلَمۡ یَعِدۡکُمۡ رَبُّکُمۡ وَعۡدًا حَسَنًا ۬ؕ اَفَطَالَ عَلَیۡکُمُ الۡعَہۡدُ اَمۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ یَّحِلَّ عَلَیۡکُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَخۡلَفۡتُمۡ مَّوۡعِدِیۡ﴿۸۶﴾

۸۶۔ چنانچہ موسیٰ غصے اور حزن کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹے، بولے: اے میری قوم ! کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا مدت تمہارے لیے لمبی ہو گئی تھی؟ یا تم نے یہ چاہا کہ تمہارے رب کا غصہ تم پر آکر رہے؟ اسی لیے تم نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی؟

قَالُوۡا مَاۤ اَخۡلَفۡنَا مَوۡعِدَکَ بِمَلۡکِنَا وَ لٰکِنَّا حُمِّلۡنَاۤ اَوۡزَارًا مِّنۡ زِیۡنَۃِ الۡقَوۡمِ فَقَذَفۡنٰہَا فَکَذٰلِکَ اَلۡقَی السَّامِرِیُّ ﴿ۙ۸۷﴾

۸۷۔ انہوں نے کہا: ہم نے آپ سے وعدہ خلافی اپنے اختیار سے نہیں کی بلکہ ہوا یہ کہ ہم پر قوم کے زیورات کا بوجھ لادا گیا تھا تو ہم نے اسے پھینک دیا اور سامری نے بھی اس طرح ڈال دیا۔

87۔ سامری کسی قبیلہ، مقام یا نسل کی طرف نسبت ہو سکتی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں ایک قوم سمیر کے نام سے مشہور تھی۔ ممکن ہے اس قوم سے تعلق رکھنے والے مصر میں آباد ہوئے ہوں جو سامری کہلاتے ہوں اور ممکن ہے سمرون نامی شخص کی اولاد ہوں، جیسے صاحب تفسیر من ھدی القرآن لکھتے ہیں: سامری سمرون کی اولاد میں سے تھا اور اس کے باپ کا نام یشاکر تھا جو یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا۔

سامری سے مراد ہو سکتا ہے سامری العقیدہ ہو۔ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں گوسالہ پرست کو سامری نہیں کہتے تھے تاہم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کئی صدیوں بعد ایک نسل پیدا ہوئی تھی جو گوسالہ پرستی میں شہرت رکھتی تھی۔ اس گوسالہ پرست قوم کو سامری کہتے تھے۔ قرآن نے گوسالہ پرست شخص کے لیے وہی نام دیا ہو جو نزول قرآن کے وقت یہودیوں میں رائج تھا، اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں یہ نام رائج نہ تھا، بہرحال مستشرقین کا یہ بہتان نہایت ہی بیہودہ اور بے بنیاد ہے کہ سامری کے نام سے شہرت پانے والی قوم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صدیوں بعد وجود میں آئی ہے۔ قرآن کے مصنف نے لاعلمی میں اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معاصر بتایا ہے۔

فَاَخۡرَجَ لَہُمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ فَقَالُوۡا ہٰذَاۤ اِلٰـہُکُمۡ وَ اِلٰہُ مُوۡسٰی ۬ فَنَسِیَ ﴿ؕ۸۸﴾

۸۸۔ اور ان کے لیے ایک بچھڑے کا قالب بنا کر نکالا جس میں گائے کی سی آواز تھی پھر وہ بولے: یہ ہے تمہارا معبود اور موسیٰ کا معبود پھر وہ بھول گیا۔

اَفَلَا یَرَوۡنَ اَلَّا یَرۡجِعُ اِلَیۡہِمۡ قَوۡلًا ۬ۙ وَّ لَا یَمۡلِکُ لَہُمۡ ضَرًّا وَّ لَا نَفۡعًا﴿٪۸۹﴾

۸۹۔ کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ (بچھڑا) ان کی کسی بات کا جواب تک نہیں دے سکتا اور وہ نہ ان کے کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہے۔

وَ لَقَدۡ قَالَ لَہُمۡ ہٰرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلُ یٰقَوۡمِ اِنَّمَا فُتِنۡتُمۡ بِہٖ ۚ وَ اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحۡمٰنُ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ وَ اَطِیۡعُوۡۤا اَمۡرِیۡ﴿۹۰﴾

۹۰۔ اور ہارون نے ان سے پہلے کہدیا تھا: اے میری قوم! بے شک تم اس کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے ہو جب کہ تمہارا رب تو رحمن ہے لہٰذا تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو ۔

90۔ بائبل کے نزدیک گوسالہ پرستی کا جرم حضرت ہارون علیہ السلام سے سرزد ہوا تھا۔ قرآن نے حضرت ہارون علیہ السلام کو اس ناکردہ گناہ سے بری الذمہ قرار دیا۔ لیکن آج بھی مستشرقین کا یہ اصرار ہے کہ گوسالہ پرستی جیسے مشرکانہ جرم کا ارتکاب ان کے نبی ہارون علیہ السلام ہی نے کیا تھا۔

جبکہ قرآن کے مطابق گوسالہ پرستی پر قوم موسیٰ علیہ السلام کی بڑی اکثریت نے اتفاق کیا، حضرت ہارون علیہ السلام کے ساتھ صرف ایک چھوٹی جماعت حق پر قائم رہی اور اکثریت کی طرف سے اس چھوٹی سی جماعت پر تشدد ہوتا تھا۔ سورہ اعراف آیت 150 میں ذکر ہو چکا ہے کہ یہ تشدد قتل کے اقدام تک پہنچ گیا تھا۔