آیات 41 - 42
 

قَالَ ہٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسۡتَقِیۡمٌ﴿۴۱﴾

۴۱۔ اللہ نے فرمایا: یہی راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ جو میرے بندے ہیں ان پر یقینا تیری بالادستی نہ ہو گی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ ہٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسۡتَقِیۡمٌ: ابلیس نے کہا: میں سب لوگوں کو بہکا دوں گا تیرے مخلص بندوں کے سوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہی راستہ ہے۔ یہی قانون ہے یہی وہ پل ہے جسے عبور کر کے ہر ایک نے مجھ تک پہنچنا ہے اور یہی وہ کسوٹی ہے جس سے حق و باطل جدا ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ امتحان ہے جس سے شیطان کے پیروکاروں اور مخلصین میں فرق نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے:

۲۔ اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ: جو میرے بندے ہیں ان پر تیری بالادستی نہ ہو گی۔ تیرے قابو میں وہ لوگ آئیں گے جو پہلے ہی بہک جانے کے لیے آمادہ ہیں۔ تو ان زمینوں میں اپنا بیج بوئے گا جو پہلے سے گمراہی کے لیے ہموار ہیں۔ بھیڑیا اس جانور کو اپنا لقمہ بناتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو جاتا ہے۔ جو لوگ عبادی کی صفوں سے علیحدہ ہو جائیں گے، ان پر تیرا تسلط قائم ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ہر شخص کو اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہے: ہٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسۡتَقِیۡمٌ ۔

۲۔ عبودیت شیطان کی بالا دستی کے لیے رکاوٹ ہے: عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ ۔۔۔۔

۳۔ شیطان کی اطاعت اس کی بالادستی کے لیے زینہ ہے: مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ۔

۴۔ انسان اپنے اعمال کا خود ذمے دار ہے۔


آیات 41 - 42