آیات 39 - 40
 

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ (ابلیس نے) کہا: میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے بہکایا ہے (لہٰذا) میں بھی زمین میں ان کے لیے (باطل کو) ضرور آراستہ کر کے دکھاؤں گا اور سب کو ضرور بالضرور بہکاؤں گا۔

اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ ان میں سے سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔

تشریح کلمات

الغی:

( غ و ی ) گمراہ کے معنوں میں ہے اور اس جہالت کو بھی کہتے ہیں جو غلط اعتقاد پر مبنی ہو۔

تفسیر آیات

۱۔ قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ: ابلیس نے اپنے بہکانے کی نسبت اللہ کی طرف دی کہ ’’جیسا کہ تو نے مجھے بہکایا‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی اس بات کو رد بھی نہیں فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ ہی نے ابلیس کو گمراہ کیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اللہ نے اس کو گمراہ کیا ہے، خود تو نہیں ہوا۔

جواب یہ ہے کہ اللہ نے ابلیس کو گمراہ کیا ہے لیکن یہ گمراہی اس نافرمانی کا لازمی نتیجہ ہے جو ابلیس سے سرزد ہوئی نیز اللہ کی طرف سے گمراہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے اور جس سے اللہ اپنی رحمت کا ہاتھ اٹھا لے اور اپنے حال پر چھوڑ دے وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے۔

۲۔ اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ: اللہ کے خالص بندے وہ ہیں جن کو خود اللہ نے خالص بنایا ہو اور اللہ ہر کس کو خالص نہیں بناتا بلکہ ان لوگوں کو خالص بناتا ہے جنہوں نے اپنی ذات کو اللہ کے لیے خالص بنایا ہو۔ اپنی ذات کو بلا شرکت غیرے صرف اللہ کی بندگی کے لیے خاص کیا ہو۔

اہم نکات

۱۔شیطان کارہائے بد کو آراستہ کر کے دکھاتا ہے۔

۲۔ابلیس مخلص بندوں کو بہکانے سے مایوس ہے۔


آیات 39 - 40