یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ فَانۡفِرُوۡا ثُبَاتٍ اَوِ انۡفِرُوۡا جَمِیۡعًا﴿۷۱﴾

۷۱۔ اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان اٹھا لو پھر دستہ دستہ یا سب مل کر نکل پڑو۔

71۔ یعنی بچاؤ کا سامان فراہم رکھو۔ بچاؤ کے سامان کا تعین دشمن کی طاقت سے ہو جاتا ہے۔ دشمن کے پاس جس طرح کا جنگی ساز و سامان ہو اور جس طرح کی مادی و عسکری طاقت اور تدبیر ہو مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ وہ اپنے لیے ایسا ہی سامان حرب آمادہ رکھیں۔

وَ اِنَّ مِنۡکُمۡ لَمَنۡ لَّیُبَطِّئَنَّ ۚ فَاِنۡ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَالَ قَدۡ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اِذۡ لَمۡ اَکُنۡ مَّعَہُمۡ شَہِیۡدًا﴿۷۲﴾

۷۲۔البتہ تم میں کوئی ایسا بھی ہے جو (جہاد سے) ضرور کتراتا ہے پھر اگر تم پر کوئی مصیبت آ پڑے تو کہتا ہے: اللہ نے مجھ پر (خاص) فضل کیا کہ میں ان لوگوں کے ساتھ حاضر نہ تھا۔

72۔ سابقہ آیت میں جن سے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے، مِنْكُمْ کا خطاب بھی انہی سے ہے اور جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کا یہ کہنا: قَدۡ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیَّ اللّٰہُ نے مجھ پر کرم کیا، بھی دلیل ہے کہ یہ خطاب منافقین کے لیے نہیں ہے جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے۔

وَ لَئِنۡ اَصَابَکُمۡ فَضۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ لَیَقُوۡلَنَّ کَاَنۡ لَّمۡ تَکُنۡۢ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہٗ مَوَدَّۃٌ یّٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ مَعَہُمۡ فَاَفُوۡزَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا﴿۷۳﴾

۷۳۔ اور اگر تم پر اللہ کی طرف سے فضل ہو جائے تو وہ اس طرح کہ گویا تم میں اور اس میں کوئی دوستی نہ تھی، ضرور کہے گا: کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرتا۔

73۔ ایسے ضعیف الایمان لوگ جنگ میں بے ثباتی اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں کہ اگر جہاد میں شرکت کرنے والوں کو کوئی حادثہ پیش آئے تو مسرت کا اظہار کرتے ہیں اور اگر مجاہدین کو فتح و نصرت حاصل ہوتی ہے تو اس طرح اظہار تأسف کرتے ہیں کہ گویا ایک اجنبی دوسرے اجنبی کے بارے میں کہتا ہے: کاش میں ان لوگوں کے ساتھ ہوتا۔ کَاَنۡ لَّمۡ تَکُنۡۢ کی عبارت میں اس بات پر دلیل ہے کہ یہ لوگ ضعیف الایمان لوگ تھے۔

فَلۡیُقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یَشۡرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ مَنۡ یُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیُقۡتَلۡ اَوۡ یَغۡلِبۡ فَسَوۡفَ نُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۷۴﴾

۷۴۔ اب ان لوگوں کو اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے جو اپنی دنیاوی زندگی کو آخرت کی زندگی کے بدلے فروخت کرتے ہیں اور جو راہ خدا میں لڑتا ہے وہ مارا جائے یا غالب آئے (دونوں صورتوں میں) ہم اسے عنقریب اجر عظیم دیں گے۔

74۔ راہ خدا میں لڑنے والوں کی اس آیت میں دو صورتیں بتائی گئی ہیں کہ وہ یا تو شہید ہو جاتے ہیں یا فتح و غلبہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کے لیے تیسری صورت یعنی شکست و فرار قابل تصور نہیں ہے۔ اگر کوئی جہاد سے راہ فرار اختیار کرتا ہے تو یہ عمل قتال فی سبیل اللّٰہ کے منافی ہے۔ یعنی جنگ سے بھاگتا وہ ہے جو سرے سے راہ خدا میں لڑ ہی نہ رہا ہو۔

وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ الظَّالِمِ اَہۡلُہَا ۚ وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾

۷۵۔ (آخر) تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس کیے گئے مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا دے اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارے لیے مددگار بنا دے؟

75۔ خطاب مومنین سے ہے کہ ان میں سے جو لوگ راسخ الایمان ہیں، انہیں راہ خدا میں جہاد کرنا چاہیے اور جو لوگ ضعیف الایمان ہیں، انہیں اپنے عزیزوں کے بارے میں کچھ حمیت آنی چاہیے۔ کیونکہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کے عزیزوں میں سے بچوں، عورتوں اور ناتواں مردوں کی ایک خاصی تعداد اسلام قبول کر چکی تھی اور یہ سب مکہ میں رہ رہے تھے اور قریش کے ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے تھے۔ اسلام کی نظر میں اگر چہ قومی اور نژادی عصبیت مردود ہے، تاہم ایمان کے بعد برادری اور قومی حمیت، جو ایک فطری عمل ہے، کو بھی مد نظر رکھنا ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس آیت میں اسی قومی حمیت اور برادری غیرت کی طرف اشارہ فرمایا ہے

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ الطَّاغُوۡتِ فَقَاتِلُوۡۤا اَوۡلِیَآءَ الشَّیۡطٰنِ ۚ اِنَّ کَیۡدَ الشَّیۡطٰنِ کَانَ ضَعِیۡفًا﴿٪۷۶﴾

۷۶۔ایمان لانے والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں پس تم شیطان کے حامیوں سے لڑو (مطمئن رہو کہ) شیطان کی عیاریاں یقینا ناپائیدار ہیں۔

76۔ کفر و ایمان کے تقابل کے ساتھ اللہ اور طاغوت کا بھی تقابل ہے۔ طاغوت کی راہ میں لڑنے والوں کو شیطان کے حامی قرار دینے کے بعد ایک کلیہ بیان فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے راستے میں شیطان کی عیاریاں کارفرما ہوتی ہیں، لیکن ایمان باللہ کے حقائق کے مقابلے میں یہ بے حقیقت عیاریاں کارآمد نہیں ہو سکتیں۔ شیطان کی عیاریاں نا پائیدار ہیں۔ عیاری یعنی مکر و حیلہ اور بے حقیقت عیاری ہمیشہ نا پائیدار ہوتی ہے۔ اس میں مسلمانوں کے لیے ایک ابدی درس ہے کہ عیاری بے حقیقت ہے اور بے حقیقتی نا پائیدار ہوتی ہے۔ لہٰذا مومنین کو اپنے بے حقیقت دشمن سے خوف نہیں کھانا چاہیے۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ قِیۡلَ لَہُمۡ کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۚ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَخۡشَوۡنَ النَّاسَ کَخَشۡیَۃِ اللّٰہِ اَوۡ اَشَدَّ خَشۡیَۃً ۚ وَ قَالُوۡا رَبَّنَا لِمَ کَتَبۡتَ عَلَیۡنَا الۡقِتَالَ ۚ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنَاۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ؕ قُلۡ مَتَاعُ الدُّنۡیَا قَلِیۡلٌ ۚ وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّمَنِ اتَّقٰی ۟ وَ لَا تُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا﴿۷۷﴾

۷۷۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا: اپنا ہاتھ روکے رکھو ، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو؟ پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے کچھ تو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرا جاتا ہے یا اس سے بھی بڑھ کر اور کہنے لگے: ہمارے رب! تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کیا ؟ ہمیں تھوڑی مہلت کیوں نہ دی؟ ان سے کہدیجئے: دنیا کا سرمایہ بہت تھوڑا ہے اور متقی (انسان) کے لیے نجات اخروی زیادہ بہتر ہے اور تم پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

77۔ ان مسلمانوں کا ذکر ہے کہ جو جہاد کا دور آنے سے پہلے جہاد کی اجازت طلب کرتے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ ابھی نماز و زکوۃ کا دور ہے، تم اپنے دور کی ذمہ داریوں پر عمل کرو۔ جب مدینہ میں جہاد و قتال کا دور آیا تو ان میں سے ایک گروہ نہ صرف جہاد سے کترانے لگا بلکہ حکم جہاد پر کھلم کھلا اعتراض کرنے لگا: لِمَ کَتَبۡتَ عَلَیۡنَا الۡقِتَالَ ۔ اے اللہ تو نے ہم پر جہاد کیوں واجب کیا؟

اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یُدۡرِکۡکُّمُ الۡمَوۡتُ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ؕ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ حَسَنَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ۚ وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِکَ ؕ قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الۡقَوۡمِ لَا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ حَدِیۡثًا﴿۷۸﴾

۷۸۔(تمہیں موت کا خوف ہے) تم جہاں کہیں بھی ہو خواہ تم مضبوط قلعوں میں بند رہو موت تمہیں آ لے گی اور انہیں اگر کوئی سکھ پہنچے تو کہتے ہیں: یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انہیں کوئی دکھ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ آپ کی وجہ سے ہے، کہدیجئے: سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے، پھر انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں ہی نہیں آتی؟

78۔ جب مسلمانوں کو فتح و نصرت مل جاتی تو وہ اسے اللہ کا فضل وکرم قرار دیتے اور جب کبھی ہزیمت اٹھانا پڑتی تو اس کا الزام رسول پر ڈالتے۔ قُلۡ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ”اے رسول! ان سے کہ دیجیے یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے“ اور اس کے وضع کردہ قانون کا لازمہ ہے یعنی یہ فتح و شکست اللہ کے وضع کردہ قانون علل و اسباب کا لازمی حصہ ہے۔

مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ۫ وَ مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ ؕ وَ اَرۡسَلۡنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا﴿۷۹﴾

۷۹۔تمہیں جو سکھ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو دکھ پہنچے وہ خود تمہاری اپنی طرف سے ہے اور ہم نے آپ کو لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور (اس پر) گواہی کے لیے اللہ کافی ہے۔

79۔ اس کے بعد فرمایا: سکھ اللہ کی طرف سے اور دکھ خود تمہاری طرف سے ہے۔ ظرفیت و اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کا فیض اس تک نہیں پہنچتا۔ یہ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ کے تحت ہے اور ظرفیت اور اہلیت پیدا نہ کرنا خود بندے کی کوتاہی ہے۔ یہ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ کے تحت ہے۔

مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ وَ مَنۡ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ﴿ؕ۸۰﴾

۸۰۔ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے منہ پھیر لیا تو ہم نے آپ کو ان کا نگہبان بنا کر تو نہیں بھیجا ۔

80۔ اطاعت، خوشدلی کے ساتھ تابعداری کرنے کو کہتے ہیں۔ طَاعَۃٌ کے مقابلہ میں كُرْہٌ آتا ہے۔ جس کے معنی ناگواری اور کراہت کے ساتھ کسی کام کو انجام دینے کے ہیں۔ لہٰذا اطاعت وہ ہے جو کسی جبر و قہر کے بغیر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت کی وجہ سے انجام دی جائے۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت اس وقت ہو گی جب ان کے سارے فرامین کو اللہ کی طرف سے مان لیا جائے اور ان پر عمل کیا جائے تو اس وقت رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔