وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا اِلٰی مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوۡلِ رَاَیۡتَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡکَ صُدُوۡدًا ﴿ۚ۶۱﴾

۶۱۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آ جاؤ تو آپ ان منافقین کو دیکھتے ہیں کہ آپ کی طرف آنے سے کتراتے ہوئے ٹال مٹول کرتے ہیں۔

61۔ سلسلۂ کلام اطاعت کے بارے میں ہے کہ مذکورہ اطاعتوں سے ہی ایمان و نفاق کا امتیاز واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔مومنین ہر حال میں اللہ کی طرف سے تعیین کردہ اطاعتوں کے دائرے میں رہ کر اپنے نزاعی مسائل میں فیصلے لیتے ہیں اور منافقین یہ دیکھتے ہیں کہ فیصلہ کس کے حق میں ہونے کی توقع ہے۔ اگر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فیصلہ ان کے حق میں ہونے کی توقع ہو تو ان کی طرف اور اگر طاغوت کا فیصلہ ان کے حق میں ہونے کی توقع ہو تو ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

فَکَیۡفَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ ثُمَّ جَآءُوۡکَ یَحۡلِفُوۡنَ ٭ۖ بِاللّٰہِ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡسَانًا وَّ تَوۡفِیۡقًا﴿۶۲﴾

۶۲۔پھر ان کا کیا حال ہو گا جب ان پر اپنے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبت آ پڑے گی؟ پھر وہ آپ کے پاس اللہ کی قسمیں کھاتے آئیں گے (اور کہیں گے:) قسم بخدا ہم تو خیر خواہ تھے اور باہمی توافق چاہتے تھے۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُ اللّٰہُ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ٭ فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ وَ عِظۡہُمۡ وَ قُلۡ لَّہُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَوۡلًۢا بَلِیۡغًا﴿۶۳﴾

۶۳۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ جانتا ہے کہ ان کے دلوں میں کیا ہے، آپ انہیں خاطر میں نہ لائیے اور انہیں نصیحت کیجیے اور ان سے ان کے بارے میں ایسی باتیں کیجیے جو مؤثر ہوں۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا﴿۶۴﴾

۶۴۔اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ باذن خدا اس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔

64۔ اللہ نے جو بھی رسول بھیجے، اس لیے بھیجے کہ ان کی اطاعت کی جائے، اس لیے نہیں بھیجے کہ لوگ ان کے نام کو مقدس سمجھتے ہوئے تعویذ بنا کر گلے میں لٹکا لیں اور ان کے لائے ہوئے دستور پر عمل نہ کریں۔

جَآءُوۡکَ : بارگاہ رسالت میں حاضر ہونا اور رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنا وسیلہ بنانا بارگاہ الٰہی میں اثر رکھتا ہے۔ یہ عمل شرک نہیں ہے بلکہ اس آیت کی روسے اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے اور بہت سے علمائے اہل سنت کا یہ نظریہ ہے کہ قبر رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرحاضری دینا بھی اسی حکم کے زمرے میں آتا ہے۔

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا﴿۶۵﴾

۶۵۔ (اے رسول) تمہارے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے باہمی تنازعات میں آپ کو منصف نہ بنائیں پھر آپ کے فیصلے پر ان کے دلوں میں کوئی رنجش نہ آئے بلکہ وہ (اسے) بخوشی تسلیم کریں۔

65۔ باہمی تنازعات میں رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حَكَمْ کے طور پر قبول کرنا ایمانِ ظاہری ہے۔ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کرنا ایمانِ باطنی ہے۔ حیاتِ رسول کے بعد آپ کی سنت کو حَكَمْ کے طور پر قبول کرنا ایمان کی علامت ہے۔

وَ لَوۡ اَنَّا کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ اَنِ اقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ اَوِ اخۡرُجُوۡا مِنۡ دِیَارِکُمۡ مَّا فَعَلُوۡہُ اِلَّا قَلِیۡلٌ مِّنۡہُمۡ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ فَعَلُوۡا مَا یُوۡعَظُوۡنَ بِہٖ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَشَدَّ تَثۡبِیۡتًا ﴿ۙ۶۶﴾

۶۶۔اور اگر ہم ان پر اپنے آپ کو ہلاک کرنا اور اپنے گھروں کو خیرباد کہنا واجب قرار دے دیتے تو ان میں سے کم لوگ ہی اس پر عمل کرتے حالانکہ اگر یہ لوگ انہیں کی جانے والی نصیحتوں پر عمل کرتے تو یہ ان کے حق میں بہتر اور ثابت قدمی کا موجب ہوتا۔

66۔ قتل و خروج سے مراد انفرادی نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو ہلاک کرنے یا اپنے ہی گھر بار چھوڑ کر نکلنے کا حکم ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم ان پر اپنی قوم کے افراد کو قتل کرنے یا اپنے گھروں سے نکلنے کا حکم دیتے جو ان کی ذاتی خواہشات کے خلاف پر مشقت کام ہے تو یہ اس حکم کی تعمیل نہ کرتے۔ حکم صرف ان کے اپنے مفاد کے مطابق ہو تو یہ ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ جان دینے یا گھر بار چھوڑنے کا حکم ہو تو راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ جیسے بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی کی سزا میں حکم دیا تھا کہ اپنے ہی لوگوں کو قتل کرو۔

وَّ اِذًا لَّاٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنۡ لَّدُنَّـاۤ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿ۙ۶۷﴾

۶۷۔ اور اس صورت میں ہم انہیں اپنی طرف سے اجر عظیم عطا کرتے ۔

وَّ لَہَدَیۡنٰہُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا﴿۶۸﴾

۶۸۔اور ہم انہیں سیدھے راستے کی رہنمائی (بھی) کرتے۔

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾

۶۹۔اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ انبیاء، صدیقین، گواہوں اور صالحین کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں۔

ذٰلِکَ الۡفَضۡلُ مِنَ اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیۡمًا﴿٪۷۰﴾

۷۰۔ یہ فضل اللہ کی طرف سے (ملتا) ہے اور علم و آگاہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے۔

69۔70۔ امالی شیخ طوسی میں مذکور ہے کہ انصار کا ایک فرد رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جدائی برداشت نہیں کر سکتا۔ میں جب گھر جاتا ہوں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یاد کرتا ہوں اور اپنا کاروبار چھوڑ کر آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور محبت بھری نگاہوں سے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دیدار کرتا ہوں۔ مجھے خیال آیا کہ قیامت کے دن آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو جنت کے اعلیٰ علیین میں ہوں گے تو اس وقت میں آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کیسے کر سکوں گا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس انصاری کو بلا کر یہ بشارت سنا دی۔