فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَۃُ قَالُوۡا لِفِرۡعَوۡنَ اَئِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ جب جادوگر آ گئے تو فرعون سے کہنے لگے: اگر ہم غالب رہے تو ہمارے لیے کوئی صلہ بھی ہو گا؟

قَالَ نَعَمۡ وَ اِنَّکُمۡ اِذًا لَّمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿۴۲﴾

۴۲۔ فرعون نے کہا: ہاں! اور اس صورت میں تو تم مقربین میں سے ہو جاؤ گے۔

قَالَ لَہُمۡ مُّوۡسٰۤی اَلۡقُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ مُّلۡقُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔موسیٰ نے ان سے کہا: تمہیں جو پھینکنا ہے پھینکو۔

43۔ اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام ان کے جادو کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ لہذا پورے اطمینان و سکون کے ساتھ کہا : پھینکو جو تمہیں پھینکنا ہے۔

فَاَلۡقَوۡا حِبَالَہُمۡ وَ عِصِیَّہُمۡ وَ قَالُوۡا بِعِزَّۃِ فِرۡعَوۡنَ اِنَّا لَنَحۡنُ الۡغٰلِبُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے: فرعون کے جاہ و جلال کی قسم بے شک ہم ہی غالب آئیں گے۔

فَاَلۡقٰی مُوۡسٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ تَلۡقَفُ مَا یَاۡفِکُوۡنَ ﴿ۚۖ۴۵﴾

۴۵۔ پھر موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو اس نے دفعتاً ان کے سارے خود ساختہ دھندے کو نگل لیا۔

45۔ اَللَّقْف تیزی سے نگل لینا۔ یَأْفِکُ اَلْاُفْک حقیقت کو خیال میں بدل دینا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جادو کسی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔

جادوگروں کی توقع کے خلاف، اس جادو کو جس پر پوری مملکت کی مہارت صرف ہوئی اور پوری شہنشاہی طاقت لگائی گئی،یکدم ایک عصا نے ہڑپ کر لیا۔

فَاُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾

۴۶۔ اس پر تمام جادوگر سجدے میں گر پڑے۔

قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۴۷﴾

۴۷۔ کہنے لگے: ہم عالمین کے رب پر ایمان لے آئے،

رَبِّ مُوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔

48۔ حالانکہ وہ فرعون سے انعام و اکرام کی توقع لے کر آئے تھے۔ حق کے مشاہدے نے ان کے وجود میں انقلاب پیدا کیا، جب کہ جادوگر ان کے ہاں معاشرے کے اہم افراد تھے۔ یعنی عبادت گاہوں کے کاہنوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ جادوگروں کے ایمان سے یہ بات غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔

قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَہٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ۚ اِنَّہٗ لَکَبِیۡرُکُمُ الَّذِیۡ عَلَّمَکُمُ السِّحۡرَ ۚ فَلَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۬ؕ لَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾

۴۹۔ فرعون نے کہا: میری اجازت سے پہلے تم موسیٰ کو مان گئے؟ یقینا یہ (موسیٰ) تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ابھی تمہیں (تمہارا انجام) معلوم ہو جائے گا، میں تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کٹوا دوں گا اور تم سب کو ضرور سولی پر لٹکا دوں گا۔

49۔ جب عبادت گاہوں کے کاہنوں کی طرف سے ایمان کا اعلان ہوا تو فرعون کی شہنشاہیت کی قانونی حیثیت مشکوک ہو گئی، کیونکہ وہ اپنے آپ کو سورج دیوتا کا شرعی اور قانونی نمائندہ تصور کرتا تھا، اس لیے اس کا بوکھلا جانا قدرتی امر تھا۔

میری اجازت سے پہلے ایمان کیوں لائے۔ موسیٰ تمہارا بڑا جادوگر ہے، جس نے تمہیں جادو سکھایا۔ یہ دونوں باتیں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے ہیں، ورنہ کسے نہیں معلوم کہ یہ جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد نہیں تھے۔ ان کا تعلق موسیٰ علیہ السلام سے نہیں خود فرعون سے تھا۔ نہ وہ ایمان کی اجازت دینے والے تھے، نہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں میں کوئی سابقہ ربط رہا تھا۔

قَالُوۡا لَا ضَیۡرَ ۫ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا مُنۡقَلِبُوۡنَ ﴿ۚ۵۰﴾

۵۰ ۔وہ بولے کوئی حرج نہیں ہم اپنے رب کے حضور لوٹ جائیں گے،

50۔ یعنی کوئی پرواہ نہیں، خواہ ہاتھ پاؤں کٹ جائیں یا سولی چڑھ جائیں یا شہید ہو جائیں، ہم تو اپنے رب کے پاس لوٹ کر جائیں گے۔ رب کے پاس جانے میں کیا پرواہ ہے؟ بلکہ یہ عاشقان حقیقت کے لیے باعث خوشی ہے۔