قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَہٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَکُمۡ ۚ اِنَّہٗ لَکَبِیۡرُکُمُ الَّذِیۡ عَلَّمَکُمُ السِّحۡرَ ۚ فَلَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ ۬ؕ لَاُقَطِّعَنَّ اَیۡدِیَکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۚ۴۹﴾
۴۹۔ فرعون نے کہا: میری اجازت سے پہلے تم موسیٰ کو مان گئے؟ یقینا یہ (موسیٰ) تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ابھی تمہیں (تمہارا انجام) معلوم ہو جائے گا، میں تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں مخالف سمتوں سے ضرور کٹوا دوں گا اور تم سب کو ضرور سولی پر لٹکا دوں گا۔
49۔ جب عبادت گاہوں کے کاہنوں کی طرف سے ایمان کا اعلان ہوا تو فرعون کی شہنشاہیت کی قانونی حیثیت مشکوک ہو گئی، کیونکہ وہ اپنے آپ کو سورج دیوتا کا شرعی اور قانونی نمائندہ تصور کرتا تھا، اس لیے اس کا بوکھلا جانا قدرتی امر تھا۔
میری اجازت سے پہلے ایمان کیوں لائے۔ موسیٰ تمہارا بڑا جادوگر ہے، جس نے تمہیں جادو سکھایا۔ یہ دونوں باتیں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے ہیں، ورنہ کسے نہیں معلوم کہ یہ جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد نہیں تھے۔ ان کا تعلق موسیٰ علیہ السلام سے نہیں خود فرعون سے تھا۔ نہ وہ ایمان کی اجازت دینے والے تھے، نہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں میں کوئی سابقہ ربط رہا تھا۔