فَاَخَذَتۡہُمُ الصَّیۡحَۃُ بِالۡحَقِّ فَجَعَلۡنٰہُمۡ غُثَآءً ۚ فَبُعۡدًا لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ چنانچہ (وعدہ) حق کے مطابق زوردار آواز نے انہیں گرفت میں لے لیا تو ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا کر رکھ دیا، پس (رحمت حق سے) دور ہو یہ ظالم قوم۔

بِالۡحَقِّ یعنی وعدہ حق کے مطابق ان کو اور ان کی رہائش گاہوں کو خس و خاشاک میں تبدیل کر دیا۔

غُثَآءً : انہیں خس و خاشاک میں تبدیل کر دیا۔ غثاء اس خس و خاشاک کو کہتے ہیں جسے سیلابی پانی بہا کر لے جاتا ہے۔

ثُمَّ اَنۡشَاۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ قُرُوۡنًا اٰخَرِیۡنَ ﴿ؕ۴۲﴾

۴۲۔ پھر ان کے بعد ہم نے اور قومیں پیدا کیں۔

42۔ ان قوموں اور رسولوں کا صراحتاً ذکر نہیں آیا اور قرینہ سے ظاہر ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد کے انبیاء اور قوموں سے مراد قوم ہود علیہ السلام اور قوم صالح علیہ السلام وغیرہ ہیں۔

مَا تَسۡبِقُ مِنۡ اُمَّۃٍ اَجَلَہَا وَ مَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ ﴿ؕ۴۳﴾

۴۳۔کوئی امت اپنے مقررہ وقت سے نہ آگے جا سکتی ہے اور نہ پیچھے رہ سکتی ہے۔

43۔ افراد کی طرح قوموں کی بھی عمریں معین ہوتی ہیں اور یہ قومیں خود اپنی زندگی کا تعین اپنے کردار کے ذریعے کرتی ہیں۔ پس ان کے اپنے کردار پر مترتب ہونے والی عمر نہ کوئی بڑھا سکتا ہے، نہ گھٹا سکتا ہے۔

ثُمَّ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا تَتۡرَا ؕ کُلَّمَا جَآءَ اُمَّۃً رَّسُوۡلُہَا کَذَّبُوۡہُ فَاَتۡبَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ بَعۡضًا وَّ جَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ ۚ فَبُعۡدًا لِّقَوۡمٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ پھر ہم نے یکے بعد دیگرے برابر اپنے رسول بھیجے، جب بھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آتا تو وہ اس کی تکذیب کرتی تو ہم بھی ایک کے بعد دوسرے کو ہلاک کرتے رہے اور ہم نے انہیں افسانے بنا دیا، (رحمت حق سے) دور ہوں جو ایمان نہیں لاتے۔

44۔ حضرت نوح اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے درمیان آنے والے متواتر انبیاء کا اجمالی ذکر ہے کہ ان سب انبیاء اور ان کی قوموں کے ساتھ سنت الٰہی یکساں رہی ہے۔ چونکہ ان سب قوموں نے رسولوں کی تکذیب کی اور اللہ نے ان پر حجت پوری کرنے کے بعد ان کو ایسے تباہ کیا کہ اب ان کی صرف عبرت آموز داستانیں ہی رہ گئی ہیں۔ اَحَادِیۡثَ، اُحْدُوْثَۃٌ کی جمع ہے۔ یعنی داستانیں۔

ثُمَّ اَرۡسَلۡنَا مُوۡسٰی وَ اَخَاہُ ہٰرُوۡنَ ۬ۙ بِاٰیٰتِنَا وَ سُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح دلیل کے ساتھ بھیجا۔

اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَ کَانُوۡا قَوۡمًا عَالِیۡنَ ﴿ۚ۴۶﴾

۴۶۔ فرعون اور ان کے درباریوں کی طرف مگر انہوں نے تکبر کیا اور وہ بڑے متکبر لوگ تھے۔

فَقَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثۡلِنَا وَ قَوۡمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوۡنَ ﴿ۚ۴۷﴾

۴۷۔ اور کہنے لگے: کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں جب کہ ان کی قوم ہماری تابعدار ہے؟

47۔ عٰبِدُوۡنَ : یہاں رام اور مطیع و فرمانبردار کے معنوں میں ہے۔ اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ کسی کی اطاعت کرنا بھی عبادت ہے۔

فَکَذَّبُوۡہُمَا فَکَانُوۡا مِنَ الۡمُہۡلَکِیۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ پھر انہوں نے دونوں کی تکذیب کی، (نتیجے کے طور پر) وہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہو گئے۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ لَعَلَّہُمۡ یَہۡتَدُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور ہم نے موسیٰ کو اس امید پر کتاب دی کہ وہ (لوگ) اس سے رہنمائی حاصل کر لیں گے۔

وَ جَعَلۡنَا ابۡنَ مَرۡیَمَ وَ اُمَّہٗۤ اٰیَۃً وَّ اٰوَیۡنٰہُمَاۤ اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ﴿٪۵۰﴾

۵۰۔ اور ابن مریم اور ان کی والدہ کو ہم نے ایک نشانی بنایا اور انہیں ہم نے ایک بلند مقام پر جگہ دی جہاں اطمینان تھا اور چشمے پھوٹتے تھے۔

50۔ رَبۡوَۃٍ سطح مرتفع کو کہتے ہیں۔ یہ علم نہیں ہو سکا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ بعض کے نزدیک مرثلہ ہے، بعض کے نزدیک دمشق اور مسیحی روایات کے مطابق اس سے مراد مصر ہے، جس کی طرف حضرت مریم (س) نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد ملک شام کے حاکم ہیرودیس کے خوف سے ہجرت کی تھی۔