یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًا ؕ اِنِّیۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِیۡمٌ ﴿ؕ۵۱﴾

۵۱۔ اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح بجا لاؤ، جو عمل تم کرتے ہو میں اسے خوب جاننے والا ہوں۔

51۔ پاکیزہ چیزیں اور عمل صالح بجا لانے میں گہرا ربط ہے۔ پاکیزہ اور حلال چیزیں کھانے سے ضمیر بیدار، نفس پاک اور شفاف رہتا ہے، جس سے عمل صالح بجا لانے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی بلکہ پاکیزہ نفس، عمل صالح بجا لانے پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور ذکر خدا سے اس کو سکون ملتا ہے۔

وَ اِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاتَّقُوۡنِ﴿۵۲﴾

۵۲۔ اور تمہاری یہ امت یقینا امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہٰذا مجھ ہی سے ڈرو۔

فَتَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ زُبُرًا ؕ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ﴿۵۳﴾

۵۳۔ مگر لوگوں نے اپنے (دینی) معاملات میں تفرقہ ڈال کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اب ہر فرقہ اپنے پاس موجود (نظریات) پر خوش ہے۔

53۔ یعنی اللہ نے تو متواتر انبیاء بھیج کر، تمام انسانوں کو ایک ہی خدا اور ایک ہی دین کی طرف دعوت دے کر، سب کو ایک امت بنایا تھا، مگر لوگ مختلف فرقوں میں بٹ گئے اور ہر فرقہ اپنے مذہب و دین پر خوش ہے۔

فَذَرۡہُمۡ فِیۡ غَمۡرَتِہِمۡ حَتّٰی حِیۡنٍ﴿۵۴﴾

۵۴۔ انہیں ایک مدت تک اپنی غفلت میں پڑا رہنے دیجئے۔

54۔ فَذَرۡہُمۡ یعنی ان کو اپنی غفلت میں چھوڑ دو۔ یہ سب سے بڑی سزا ہے کہ اللہ نے ان سے اپنی رحمت کا ہاتھ اٹھا لیا۔ اسی لیے مومن کو ہمیشہ یہ دعا کرنی چاہیے، جو امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے: رَبِّ لَا تَکِلْنِی اِلَی نَفْسِی طَرْفَۃَ عَیْنٍ اَبَداً ۔ (الکافی 2: 581) پروردگار! مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے حال پر نہ چھوڑ۔

اَیَحۡسَبُوۡنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمۡ بِہٖ مِنۡ مَّالٍ وَّ بَنِیۡنَ ﴿ۙ۵۵﴾

۵۵۔ کیا یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مال اور اولاد سے جو انہیں مالامال کرتے ہیں،

55۔ ان کا یہ گمان درست نہیں ہے کہ جن کو اللہ نے مال و دولت اور مہلت دے رکھی ہے، یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ یہ مہلت و دولت ان کے لیے ایک امتحان ہے اور موجب عذاب۔

نُسَارِعُ لَہُمۡ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ بَلۡ لَّا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ تو ہم انہیں تیزی سے بھلائی پہنچا رہے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مِّنۡ خَشۡیَۃِ رَبِّہِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَ ﴿ۙ۵۷﴾

۵۷۔ (حقیقت یہ ہے کہ) جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ہراساں ہیں،

57۔ خدا ایسی ذات نہیں جس سے خوف آ جائے، وہ تو اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ، غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ہے، بلکہ خوف کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے عدل سے خوف آجائے اور عدل سے خوف، ہمیشہ خلاف ورزی کی صورت میں آتا ہے۔ لہٰذا مطلب یہ ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو عدل خداوندی سے خوف کھانا چاہیے۔

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۵۸﴾

۵۸۔ اور جو اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لاتے ہیں،

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِرَبِّہِمۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۵۹﴾

۵۹۔ اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے،

وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا وَّ قُلُوۡبُہُمۡ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمۡ اِلٰی رَبِّہِمۡ رٰجِعُوۡنَ ﴿ۙ۶۰﴾

۶۰۔ اور جو کچھ وہ دیتے ہیں اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس بات سے لرز رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔