وَ قَالَ اللّٰہُ لَا تَتَّخِذُوۡۤا اِلٰـہَیۡنِ اثۡنَیۡنِ ۚ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ﴿۵۱﴾

۵۱۔ اور اللہ نے فرمایا: تم دو معبود نہ بنایا کرو، معبود تو بس ایک ہی ہے پس تم صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔

وَ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَہُ الدِّیۡنُ وَاصِبًا ؕ اَفَغَیۡرَ اللّٰہِ تَتَّقُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اس کی ملکیت ہے اور دائمی اطاعت صرف اسی کے لیے ہے تو کیا تم اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو؟

وَ مَا بِکُمۡ مِّنۡ نِّعۡمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیۡہِ تَجۡـَٔرُوۡنَ ﴿ۚ۵۳﴾

۵۳۔ اور تمہیں جو بھی نعمت حاصل ہو وہ اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو تم اس کے حضور زاری کرتے ہو۔

ثُمَّ اِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنۡکُمۡ اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡکُمۡ بِرَبِّہِمۡ یُشۡرِکُوۡنَ ﴿ۙ۵۴﴾

۵۴۔ پھر جب اللہ تم سے تکلیف دور کر دیتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔

53۔54۔ بیرونی عوامل سے انسان اپنے فطری تقاضوں سے انحراف کرتا ہے۔ مثلاً علم دوستی، جمالیات پرستی اور احسان کرنے کا جذبہ بالاتفاق انسان کے فطری امور ہیں، اس کے باوجود برے ماحول اور بری تربیت کی وجہ سے انسان ان فطری تقاضوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح خدا پرستی بھی انسانی فطرت میں رچی بسی ہوئی ہے، لیکن بیرونی عوامل کی وجہ سے وہ اس فطری تقاضے سے منحرف ہو جاتا ہے۔ جب انسان کسی مشکل میں مبتلا ہو جاتا ہے، بیرونی عوامل کا دباؤ ہٹ جاتا ہے اور انسان اپنی فطرت سلیم کے ساتھ سرگوشی کرنے لگتا ہے تو فطرت بنیادی طور پر اپنے خالق سے مانوس ہے، اسے فورا پکارتا ہے اور صرف اسی سے لو لگاتا ہے۔ جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو پھر بیرونی عوامل کے دباؤ میں آتا ہے اور دیگر مشرکین کی طرح یہ بھی اللہ کو بھول جاتا ہے اور شرک کرنے لگتا ہے۔

لِیَکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اٰتَیۡنٰہُمۡ ؕ فَتَمَتَّعُوۡا ۟ فَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۵۵﴾

۵۵۔ اس طرح وہ ان نعمتوں کی ناشکری کرنا چاہتے ہیں جو ہم نے انہیں دے رکھی ہیں سو ابھی تم مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِمَا لَا یَعۡلَمُوۡنَ نَصِیۡبًا مِّمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ ؕ تَاللّٰہِ لَتُسۡـَٔلُنَّ عَمَّا کُنۡتُمۡ تَفۡتَرُوۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور یہ لوگ ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے ان کے لیے حصے مقرر کرتے ہیں جنہیں یہ جانتے بوجھتے تک نہیں، اللہ کی قسم اس افترا کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔

56۔ وہ ایسی چیزوں کے لیے نیاز و بھینٹ چڑھاتے ہیں جن کے بارے میں انہیں کوئی علم حاصل نہیں ہے کہ ان چیزوں کو بھی خدائی امور میں مداخلت کا حق ہے یا ان چیزوں کا اللہ کی سلطنت میں حصہ اور شراکت ہے، بلکہ اپنے ظن و تخمین کے مطابق ان بتوں کے سامنے اپنے نذرانے پیش کرتے ہیں۔

وَ یَجۡعَلُوۡنَ لِلّٰہِ الۡبَنٰتِ سُبۡحٰنَہٗ ۙ وَ لَہُمۡ مَّا یَشۡتَہُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور انہوں نے اللہ کے لیے بیٹیاں قرار دے رکھی ہیں جس سے وہ پاک و منزہ ہے اور (یہ لوگ) اپنے لیے وہ (اختیار کرتے ہیں) جو یہ خود پسند کرتے ہیں (یعنی لڑکے)۔

وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸﴾

۵۸۔ اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے ۔

یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کیا اسے ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دے یا اسے زیر خاک دبا دے؟ دیکھو! کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں؟

57 تا 59۔ عرب جاہلیت کے مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور جب اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے تو کہتے تھے: الحقوا البنات بالبنات ۔ان بیٹیوں کو ان بیٹیوں سے ملا دو۔ خود مشرکین لڑکیوں کو عار و ننگ تصور کرتے تھے اور انہیں اقتصادی طور پر بھی بوجھ تصور کرتے اور قحط کے خوف سے مار ڈالتے تھے۔ اس ماحول میں مبعوث ہونے والے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی بیٹی کو اپنے وجود کا ٹکڑا قرار دیتے ہیں: اِنَّ فَاطِمَۃَ بَضْعَۃٌ مِنِّی ۔ (وسائل الشیعۃ 20: 67)

لِلَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ مَثَلُ السَّوۡءِ ۚ وَ لِلّٰہِ الۡمَثَلُ الۡاَعۡلٰی ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿٪۶۰﴾

۶۰۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے لیے بری صفات ہیں اور اللہ کے لیے تو اعلیٰ صفات ہیں اور وہ بڑا غالب آنے والا،حکمت والا ہے۔

60۔ ایمان بالآخرہ وہ محرک ہے جو انسان کو برے اعمال سے روکتا ہے اور نیک اعمال کی ترغیب دیتا ہے، کیونکہ عقاب و ثواب پر ایمان سے انسان اپنی زندگی کو اچھے اعمال سے سدھارتا ہے اور اس دنیا میں جتنے جرائم اور مظالم موجود ہیں وہ ایمان بالآخرہ نہ ہونے یا اس پر ایمان کمزور ہونے کی وجہ سے ہیں۔