یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ﴿۵۹﴾

۵۹۔ اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کیا اسے ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دے یا اسے زیر خاک دبا دے؟ دیکھو! کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں؟

57 تا 59۔ عرب جاہلیت کے مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور جب اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے تو کہتے تھے: الحقوا البنات بالبنات ۔ان بیٹیوں کو ان بیٹیوں سے ملا دو۔ خود مشرکین لڑکیوں کو عار و ننگ تصور کرتے تھے اور انہیں اقتصادی طور پر بھی بوجھ تصور کرتے اور قحط کے خوف سے مار ڈالتے تھے۔ اس ماحول میں مبعوث ہونے والے رسول ﷺ اپنی بیٹی کو اپنے وجود کا ٹکڑا قرار دیتے ہیں: اِنَّ فَاطِمَۃَ بَضْعَۃٌ مِنِّی ۔ (وسائل الشیعۃ 20: 67)