وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا لَـنُبَوِّئَنَّہُمۡ فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً ؕ وَ لَاَجۡرُ الۡاٰخِرَۃِ اَکۡبَرُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾

۴۱۔ اور جنہوں نے ظلم کا نشانہ بننے کے بعد اللہ کے لیے ہجرت کی انہیں ہم دنیا ہی میں ضرور اچھا مقام دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے، اگر وہ جانتے ہوتے۔

41۔ فی سبیل اللہ ہجرت کے اچھے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ ایک طرف سے دنیا میں اچھا مقام ملتا ہے اور آخرت کا اجر تو قابل وصف و بیان نہیں ہے۔

الَّذِیۡنَ صَبَرُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾

۴۳۔ اور ہم نے آپ سے قبل صرف مردان (حق) رسول بنا کر بھیجے ہیں جن پر ہم وحی بھیجا کرتے ہیں، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ ؕ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۴۴﴾ ۞ؒ

۴۴۔ (جنہیں) دلائل اور کتاب دے کر بھیجا تھا اور (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔

43۔44 اللہ تعالیٰ نے جب بھی اہل ارض کی طرف کسی رسول کو بھیجا ہے تو انہی آدمیوں کو وحی دے کر بھیجا ہے جن کے پاس اگر کوئی طاقت تھی تو وہ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ کی طاقت تھی۔ یعنی دلیل و منطق کی طاقت۔ ان کو مافوق البشر طاقت کی اجازت دے کر نہیں بھیجا کہ اس طاقت کے ذریعے وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ اگر اللہ کی سنت اس قسم کی طاقت استعمال کرنے کی ہوتی تو آج کے مشرک یہ کہ سکتے تھے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کر سکتے۔ اس بارے میں یہ حکم ہوا کہ گزشتہ انبیاء کے بارے میں اگر تم جاننا چاہتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

اگرچہ فَسۡـَٔلُوۡۤا کاخطاب مشرکین سے ہے، لیکن تفسیری قاعدے کے تحت لفظ کا عموم دیکھا جاتا ہے اور حکم صرف شان نزول کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاتا، اس طرح یہ آیت ہر نہ جاننے والے کے لیے، جاننے والوں سے سوال کرنے کے بارے میں ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اہل ذکر سے مراد اہل قرآن ہیں۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے: نَحْنُ اَھْلُ الذِّکْرِ وَ نَحْنُ الْمَسْؤلُونَ ۔(اصول الکافی 1:210) ہم اہل الذکر ہیں اور ہم سے سوال کیا جانا چاہیے۔ غیر امامیہ مصادر کے لیے ملاحظہ ہو احقاق الحق 3: 482۔

اَفَاَمِنَ الَّذِیۡنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ یَّخۡسِفَ اللّٰہُ بِہِمُ الۡاَرۡضَ اَوۡ یَاۡتِیَہُمُ الۡعَذَابُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔ جو بدترین مکاریاں کرتے ہیں کیا وہ اس بات سے بے خوف ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر ایسی جگہ سے عذاب آئے کہ جہاں سے انہیں خبر ہی نہ ہو؟

اَوۡ یَاۡخُذَہُمۡ فِیۡ تَقَلُّبِہِمۡ فَمَا ہُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ ﴿ۙ۴۶﴾

۴۶۔ یا انہیں آتے جاتے ہوئے (عذاب الٰہی) پکڑ لے؟ پس وہ اللہ کو عاجز تو کر نہیں سکتے ۔

اَوۡ یَاۡخُذَہُمۡ عَلٰی تَخَوُّفٍ ؕ فَاِنَّ رَبَّکُمۡ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۴۷﴾

۴۷۔ یا انہیں خوف میں رکھ کر گرفت میں لیا جائے؟ پس تمہارا رب یقینا بڑا شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔

45 تا 47۔ کیا رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایذاء پہنچانے کے لیے بدترین سازشیں کرنے والے یہ خیال نہیں کرتے کہ اللہ ان کو کسی زمینی آفت میں مبتلا کر دے۔ ان پر نزول عذاب کے لیے کسی خاص وقت مقام اور ذریعے کی ضرورت نہیں ہے۔ بیٹھے بیٹھے زمین میں دھنس سکتے ہیں، غیر متوقع جگہ سے عذاب آ سکتا ہے، جیسا کہ جنگ بدر میں بالکل غیر متوقع جگہ سے ان پر عذاب آیا۔ یا کسی تجارت وغیرہ کے سفر میں جاتے آتے ہوئے عذاب آ سکتا ہے کچھ نہ ہوا اور اللہ نے شفقت و رحمت سے کام لیا تو خوف و ہراس میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ دوسری تشریح کے مطابق اللہ نے اگر رحم کیا تو مال و دولت کو گھٹا کر تم کو کم سے کم سزا دے سکتا ہے۔

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ الشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَ ہُمۡ دٰخِرُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ کیا انہوں نے اللہ کی مخلوقات میں ایسی چیز نہیں دیکھی جس کے سائے دائیں اور بائیں طرف سے عاجز ہو کر اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے جھکتے ہیں؟

وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ دَآبَّۃٍ وَّ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور آسمانوں اور زمین میں ہر متحرک مخلوق اور فرشتے سب اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔

49۔ دَآبَّۃٍ رینگنے اور چلنے والے جانداروں کو کہتے ہیں۔ آیت سے معلوم ہوا کہ آسمانوں میں فرشتوں کے علاوہ چلنے والے جاندار ہیں، جو اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں۔ یہ مخلوق فرشتوں کے علاوہ اس لیے ہے کہ فرشتوں کا الگ ذکر ہوا ہے۔ یہ چلنے والی مخلوق اور فرشتے اللہ کے لیے سجدہ کرنے سے تکبر نہیں کرتے اور اپنے رب کا خوف دل میں رکھتے ہیں۔

یَخَافُوۡنَ رَبَّہُمۡ مِّنۡ فَوۡقِہِمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ﴿٪ٛ۵۰﴾۩

۵۰۔ وہ اپنے رب سے جو ان پر بالادستی رکھتا ہے ڈرتے ہیں اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔

50۔ مِّنۡ فَوۡقِہِمۡ یعنی وہ رب جو ان پر فوقیت اور بالا دستی رکھتا ہے۔ اس جگہ غیر امامیہ علمائے سلف کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اللہ کے لیے مکان ہے۔ وہ اس آیت سے یوں استدلال کرتے ہیں کہ اللہ کے لیے بالانشینی ثابت ہے۔ چنانچہ علامہ شام قاسمی نے محاسن التاویل میں، علامہ ذہبی نے کتاب العلو میں، ابن قیم نے الجیوش الاسلامیۃ میں اور حکیم ابن رشد نے مناھج الدولۃ میں طویل بحث کی ہے اور سب کی رائے سے ثابت کیا ہے کہ اللہ اوپر ہے۔ چنانچہ اس کی تفصیل مقدمہ میں مذکور ہے۔