بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ ؕ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۴۴﴾ ۞ؒ

۴۴۔ (جنہیں) دلائل اور کتاب دے کر بھیجا تھا اور (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔

43۔44 اللہ تعالیٰ نے جب بھی اہل ارض کی طرف کسی رسول کو بھیجا ہے تو انہی آدمیوں کو وحی دے کر بھیجا ہے جن کے پاس اگر کوئی طاقت تھی تو وہ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ کی طاقت تھی۔ یعنی دلیل و منطق کی طاقت۔ ان کو مافوق البشر طاقت کی اجازت دے کر نہیں بھیجا کہ اس طاقت کے ذریعے وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ اگر اللہ کی سنت اس قسم کی طاقت استعمال کرنے کی ہوتی تو آج کے مشرک یہ کہ سکتے تھے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کر سکتے۔ اس بارے میں یہ حکم ہوا کہ گزشتہ انبیاء کے بارے میں اگر تم جاننا چاہتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔

اگرچہ فَسۡـَٔلُوۡۤا کاخطاب مشرکین سے ہے، لیکن تفسیری قاعدے کے تحت لفظ کا عموم دیکھا جاتا ہے اور حکم صرف شان نزول کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جاتا، اس طرح یہ آیت ہر نہ جاننے والے کے لیے، جاننے والوں سے سوال کرنے کے بارے میں ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اہل ذکر سے مراد اہل قرآن ہیں۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے روایت ہے: نَحْنُ اَھْلُ الذِّکْرِ وَ نَحْنُ الْمَسْؤلُونَ ۔(اصول الکافی 1:210) ہم اہل الذکر ہیں اور ہم سے سوال کیا جانا چاہیے۔ غیر امامیہ مصادر کے لیے ملاحظہ ہو احقاق الحق 3: 482۔