قَالَ ہٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسۡتَقِیۡمٌ﴿۴۱﴾

۴۱۔ اللہ نے فرمایا: یہی راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے۔

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ جو میرے بندے ہیں ان پر یقینا تیری بالادستی نہ ہو گی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔

وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوۡعِدُہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۟ۙ۴۳﴾

۴۳۔ ان سب کی وعدہ گاہ جہنم ہے۔

لَہَا سَبۡعَۃُ اَبۡوَابٍ ؕ لِکُلِّ بَابٍ مِّنۡہُمۡ جُزۡءٌ مَّقۡسُوۡمٌ ﴿٪۴۴﴾

۴۴۔ جس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لیے ان کا ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے۔

43۔44 جہنم شیطان کے پیروکاروں کی وعدہ گاہ ہے۔شیطان کے پیروکاروں کے لیے ایک ہی سطح کا عذاب نہ ہو گا، بلکہ ہر مجرم کو اس کے جرم کے مطابق جہنم میں جگہ دی جائے گی۔ ممکن ہے مجرمین کے سات گروہ بنتے ہوں، اس لیے جہنم کے سات طبقات ہوں، ہر طبقہ کو دروازہ کہا گیا ہو۔ چنانچہ تفسیر در المنثور جلد 4 صفحہ 186 میں آیا ہے کہ ابن مردویہ نے حضرت ابوذرؓ سے پیغمبر اکرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ روایت بیان کی ہے: جہنم کا ایک دروازہ ایسا ہے جس میں وہی لوگ داخل ہوں گے جنہوں نے میرے اہل بیت علیہ السلام کے حق میں مجھے اذیت دی اور میرے بعد ان کے خون بہائے۔

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ؕ۴۵﴾

۴۵۔ (ادھر) اہل تقویٰ یقینا باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔

45۔ الۡمُتَّقِیۡنَ : (و ق ی) تقویٰ کا ترجمہ عموماً پرہیزگار، اگر فعل امر کی شکل میں آئے تو خوف کرو کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تقویٰ کا لازمہ ضرور ہے لیکن ترجمہ نہیں ہے۔ یہ لفظ و ق ی وَقَی سے ہے، جس کے معنی محافظت اور بچانے کے ہیں۔ لہٰذا تقویٰ کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ تقویٰ کی لغوی تشریح کی روشنی میں تقویٰ کا شرعی اصطلاح میں مفہوم یہ بنتا ہے: اسلام نے زندگی کے لیے جو اصول متعین کیے ہیں، ان کے دائرے میں رہنا اور جن چیزوں کو گناہ اور پلیدی قرار دیا ہے، ان سے اپنے آپ کو بچانا۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: اللہ سے تقویٰ کرنے کی وجہ سے اللہ نے اپنے دوستوں کو اپنی حمایت میں لیا ہے اور محرمات میں مبتلا ہونے سے بچایا ہے اور خوف خدا کو دلوں میں جاگزیں کیا ہے۔

اُدۡخُلُوۡہَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔ (ان سے کہا جائے گا) سلامتی و امن کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ۔

وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور ان کے دلوں میں جو کینہ ہو گا ہم نکال دیں گے وہ برادرانہ طور پر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

لَا یَمَسُّہُمۡ فِیۡہَا نَصَبٌ وَّ مَا ہُمۡ مِّنۡہَا بِمُخۡرَجِیۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ جہاں نہ انہیں کوئی تکلیف پہنچے گی نہ انہیں وہاں سے نکالا جائے گا۔

نَبِّیٴۡ عِبَادِیۡۤ اَنِّیۡۤ اَنَا الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿ۙ۴۹﴾

۴۹۔ (اے رسول) میرے بندوں کو بتا دو کہ میں بڑا درگزر کرنے والا، مہربان ہوں۔

49۔ کس قدر رحمت و شفقت ہے اس آواز میں: میرے بندوں کو بتا دو۔ بتا دو میں غفور ہوں۔ بتا دو میں رحیم ہوں کس قدر شیریں ہے یہ خطاب میرے بندوں کو بتا دو، کس قدر مہر و محبت ہے اس لہجے میں، کسی قدر امید افزا ہے۔ اَنِّیۡۤ اَنَا الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ۔ میں نہایت درگزر کرنے والا، مہربان ہوں۔ گنہگاروں کے لیے سرمایہ امید و رجا ہے یہ جملہ: میں در گزر کرنے والا ہوں۔

وَ اَنَّ عَذَابِیۡ ہُوَ الۡعَذَابُ الۡاَلِیۡمُ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور یہ کہ میرا عذاب بھی یقینا بڑا دردناک عذاب ہے ۔