بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ البتہ جو کوئی بدی اختیار کرے اور اس کے گناہ اس پر حاوی ہو جائیں تو ایسے لوگ اہل دوزخ ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿٪۸۲﴾

۸۲۔ اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں، یہ لوگ اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

81۔ 82 اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر گناہ اس پر حاوی نہ ہوا ہو اور ہدایت و توبہ کے لیے ہنوز گنجائش موجود ہو تو نجات کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔ اللہ کی سنت اور اس کا عدل و انصاف یہ ہے کہ جزا عمل کے مطابق ہو۔ اگر گناہ اور معصیت انسان کی زندگی کو ڈھانپ لے اور ہدایت کی کوئی گنجائش نہ ہو تو اس کا لازمی نتیجہ جہنم ہے۔

اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جب تک انسان کے گناہ مکمل طور پر اس پر حاوی نہ ہو جائیں اس وقت تک ہدایت، توبہ اور نجات کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ ذِی ‌الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا وَّ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ؕ ثُمَّ تَوَلَّیۡتُمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّنۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو گئے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو۔

83۔ وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا : قرآن میں متعدد مقامات پر حسنِ گفتار کی تاکید ہوئی ہے کیونکہ حسنِ گفتار میں جادو کا اثر ہے جبکہ بد کلامی سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خوش کلامی میں احترام آدمیت ملحوظ رہتا ہے۔ اس لیے قرآنی تعلیمات میں اسے مادی قدروں سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی ۔ (2: 263) خوش کلامی اور درگزر اس خیرات سے بہتر ہیں جس کے بعد ایذاء دی جائے۔

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَکُمۡ لَا تَسۡفِکُوۡنَ دِمَآءَکُمۡ وَ لَا تُخۡرِجُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ ثُمَّ اَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ﴿۸۴﴾

۸۴۔ اور (وہ وقت یاد کرو)جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ بہاؤ گے اور اپنے ہی لوگوں کو اپنی بستیوں سے نہ نکالو گے، پھر تم نے اس کا اقرار کر لیا جس کے تم خود گواہ ہو۔

84۔ بنی اسرائیل کے واقعات اس اہتمام کے ساتھ اس لیے بیان ہو رہے ہیں کہ یہ انسانی تاریخ کی سب سے پہلی اور عظیم تحریک تھی۔ جن اقدار کے لیے وقت کے طاغوت فرعون کے خلاف یہ تحریک چلی تھی وہ درج ذیل ہیں: ٭خدائے واحد کی بندگی۔ ٭ والدین سے حسن سلوک۔ ٭ قریبی رشتہ داروں سے نیکی۔ ٭یتیموں سے شفقت۔ ٭ مسکینوں اور ناداروں سے حسن سلوک۔ ٭ لوگوں سے خوش گفتاری۔ ٭اقامۂ نماز۔ ٭ادائے زکوۃ۔ ٭ ناحق خون ریزی سے اجتناب۔ ٭ اپنی قوم کے افراد کو جلا وطن نہ کرنے کا عہد۔

ثُمَّ اَنۡتُمۡ ہٰۤـؤُلَآءِ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ تُخۡرِجُوۡنَ فَرِیۡقًا مِّنۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِہِمۡ ۫ تَظٰہَرُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ؕ وَ اِنۡ یَّاۡتُوۡکُمۡ اُسٰرٰی تُفٰدُوۡہُمۡ وَ ہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیۡکُمۡ اِخۡرَاجُہُمۡ ؕ اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ پھر تم ہی وہ لوگ ہو جو اپنے افراد کو قتل کرتے ہو اور اپنوں میں سے ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو، پھر گناہ اور ظلم کر کے ان کے دشمنوں کی مدد کرتے ہو اور اگر وہ قید ہو کر تمہارے پاس آتے ہیں تو تم فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے ہو، حالانکہ انہیں نکالنا ہی تمہارے لیے سرے سے حرام تھا، کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہو اور کچھ حصے سے کفر اختیار کرتے ہو؟ پس تم میں سے جو ایسا کرے دنیاوی زندگی میں اس کی سزا رسوائی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور آخرت میں (ایسے لوگ) سخت ترین عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔

85۔ عہد نبوی کے معاصر یہودی، دو بڑے قبائل (بنی نضیر اور بنی قریظہ ) میں بٹے ہوئے تھے۔ یہودی جب آپس میں لڑتے تو مشرکین سے مدد لیتے تھے اور جب کوئی یہودی دوسرے فریق کے اتحادی مشرکین کا اسیربن جاتا اور فدیہ دے کر اسیروں کو چھڑانے کی نوبت آتی تو حکم خدا کا حوالہ دیتے تھے۔ یہ تبعیض فی الایمان اور تضاد فی العمل کتنی غیر معقول روش ہے۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا بِالۡاٰخِرَۃِ ۫ فَلَا یُخَفَّفُ عَنۡہُمُ الۡعَذَابُ وَ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ﴿٪۸۶﴾

۸۶۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کے بدلے میں دنیاوی زندگی خرید لی ہے پس ان کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی۔

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ قَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبۡتُمۡ ۫ وَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے، اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو نمایاں نشانیاں عطا کیں اور روح القدس کے ذریعے ان کی تائید کی تو کیا جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات کے خلاف (احکام لے کر) آئے تو تم اکڑ گئے، پھر تم نے بعض کو جھٹلا دیا اور بعض کو تم لوگ قتل کرتے رہے؟

87۔ بنا بر قولے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے درمیان چار ہزار انبیاء مبعوث ہوئے اور بعض کے نزدیک یہ تعداد ستر ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری الوالعزم نبی ہیں۔ آپ علیہ السلام کی ولادت عام بشری طریقے سے مختلف ہوئی، اس لیے آپ علیہ السلام کے مزاج میں ملکوتیت غالب رہی اور آپ علیہ السلام روح القدس سے زیادہ مانوس تھے۔

اسلامی اصطلاح میں روح القدس جبرئیل کا نام ہے جو انبیاء پر وحی لے کر نازل ہوتے رہے۔ اس کا اس مسیحی اصطلاح سے کوئی تعلق نہیں جس میں وہ روح القدس کو تثلیث مقدس کا ” اقنوم ثالث “ قرار دیتے ہیں۔

وَ قَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَقَلِیۡلًا مَّا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۸۸﴾

۸۸۔ اور وہ کہتے ہیں : ہمارے دل غلاف میں بند ہیں، (نہیں) بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان پر لعنت کر رکھی ہے، پس اب وہ کم ہی ایمان لائیں گے۔

88۔ یہودیوں کا نظریہ ہے کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں، لہٰذا ان پر اسلامی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اللہ فرماتا ہے: ان کا ایمان نہ لانا ان کے راندﮤ درگاہ ہونے کی وجہ سے ہے۔

وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚۖ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔ اور جب اللہ کی جانب سے وہ کتاب آئی جو ان کے پاس موجود باتوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور وہ پہلے کافروں پر فتح کی امید رکھتے تھے، پھر جب ان کے پاس وہ آگیا جسے وہ خوب پہچانتے تھے تو وہ اس کے منکر ہو گئے، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔

89۔ رسولِ کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمد سے پہلے یہودی ان کے منتظر رہتے تھے اور کہتے تھے کہ جب وہ آئیں گے تو ہمیں کافروں پر فتح حاصل ہو گی۔ جب وہ نبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آگئے تو اوس و خزرج کے قبائل نے ایمان لانے میں پہل کی لیکن وہ یہودی جو ان کی آمد کے منتظر تھے، دشمن بن گئے۔

بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمۡ اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ بَغۡیًا اَنۡ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ۚ فَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿۹۰﴾

۹۰۔کتنی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا کیا کہ صرف اس بات کی ضد میں خدا کے نازل کیے کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل کرتا ہے، پس وہ اللہ کے غضب بالائے غضب میں گرفتار ہوئے اور کافروں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔

90۔ یہودی صرف حسد کی بنا پر اسلام کے خلاف ہو گئے، ورنہ وہ اسلام کی حقانیت سے آگاہ اور اس کے منتظر تھے۔